تھامسن ایک امریکی فوجی تھا۔ جنگ عظیم ثانی کے دوران میں اس کی ڈیوٹی کیلی فورنیا کے صحرا موجاوی میں لگ گئی۔ کچھ عرصہ بعد تھامسن کی بیوی کو شوہر کی جدائی نے ستایا، تو وہ بھی شوہر کے قرب کی تلاش میں صحرا جا پہنچی اور ایک صحرائی بستی میں مکان لے کر رہنے لگی۔ ظاہر ہے کہ لایف ٹف تھی اور تھامسن کی بیوی صحرانورد نہیں تھی۔ تھوڑے دن رہنے کے بعد اسے اکتاہٹ محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ جب جگہ انسان کی پسند اور ذہن کے مطابق نہ ہو، تو زندگی کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ گرمی، ریت اور آندھی ہر وقت وہاں اس کے استقبال کے لیے موجود رہتی تھی۔ ان سب چیزوں سے زیادہ ایک اور بلا تھی جو سوہان روح تھی اور وہ تھی ’’تنہائی‘‘ کیوں کہ اس کے شوہر مسٹر تھامسن کا بیش تر وقت فوجی گشت میں گزرتا تھا۔ وقت گزارنے اور تنہائی کم کرنے کے لیے اس نے دیہاتی پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہی اس کے واحد ساتھی تھے لیکن وہ بھی اس کی تنہائی دور کرنے کا سبب نہ بن سکے۔ کیوں کہ وہ لوگ انگریزی زبان سے کوسوں دور تھے۔ اس لیے وہ ان سے بھی مانوس نہ ہوسکی۔ یوں یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ تنہائی اپنی جگہ جوں کی توں منھ کھولے کھڑی تھی۔ آخر اس نے Extreme فیصلہ کیا کہ وہ اس جگہ سے نقل مکانی کر جائے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ روانگی سے پہلے اس نے اپنے والدین کو مایوسانہ خط لکھا کہ وہ جلد ہی ان کے پاس لوٹ آنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی ریت سے لے کر تنہائی تک بھی تمام داستان تحریر کر بھیجی۔ کچھ دن بعد باپ کا جواب آگیا۔ تنہائی جتنی طویل تھی باپ کا جواب اتنا ہی مختصر تھا۔ خط میں صرف دو سطریں لکھی ہوئی تھیں:
".Two men looked out from prison bars. One saw the mud, the other saw the stars”
باپ کی بات بڑی گہری تھی کہ ’’بیٹی دو آدمیوں نے بہ یک وقت قید خانے کی سلاخوں سے باہر نظر ڈالی۔ ایک کو کیچڑ دکھائی دیا دوسرے کو ستارے۔‘‘
لڑکی ذہین تھی، سو دو سطریں ہی کافی تھیں۔ زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اس نے صحرائی گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کیاکہ وہ یہاں رہ کر اپنی زندگی مسخر کرے گی۔ اس نے کیچڑ کو محسوس کرنے کی بہ جائے اوپر چمکتے ستاروں کو توجہ کا محور بنایا۔ اس نے ستاروں کو دیکھنے کی کوششیں شروع کردیں۔ مقامی لوگ انگریزی سے نابلد تھے، تو کیا ہوا اس نے ان کو دوست بنایا ان کا کلچر اور زبان سیکھی۔ صحرا کے رنگوں میں خود کو رنگ لیا۔ شوق بڑھتا گیا۔ اس نے اپنی زندگی صحرا کے ڈوبتے اور نکلتے سورج کے حسن کے نام کر دی۔ دھیرے دھیرے جس جگہ کبھی اسے تنہائی ڈستی تھی، اس جگہ سے اسے اتنی محبت ہوگئی کہ جب موصوفہ کے شوہر فوجی ملازمت سے ریٹایرڈہوئے، تو دونوں نے طے کیا کہ وہ باقی زندگی اسی مقام پر گزاریں گے۔ سب سے بڑا کمال یہ ہوا کہ صحرائی زندگی نے مسز تھامسن کو ایک مصنف بنا دیا۔ اس نے اپنی صحرائی زندگی سے متعلق ایک کتا ب لکھی جس کا نا م "Bright Ramparts” ہے جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قایم کیے اور کثیر ایڈیشن اپنے نام کیے۔
میں نے جب جب ’’تھیلما تھامسن‘‘ کی کہانی پڑھی، تو مجھے احساس ہوا کہ ہم سب کو کیچڑ اور ستاروں میں سے سوچنا ہے کہ ہم کیچڑ کے اندر خود کو لت پت کرلیں یا ستاروں کے بارے میں سوچنے کی عادت ڈالیں۔ بہت بحث چھڑی ہے کہ دھرنوں کی آوٹ کم آگئی ہے۔ دھرنوں کی ناکامی کا طعنہ مارنے والی حکومت اب واضح بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ حکومت اور حکومتی پارٹی کے رفقا بدلتی دنیا سے 2017ء میں بھی ناآشنا ہیں۔ دنیا ستارے توڑ کر لا چکی ہے جب کہ یہاں ستاروں کی بات کرنا ہی جرم ہے، توڑ کر لانا تو شاید قابل گردن زدنی ہوگا۔
مجھ سے جب بھی کوئی پوچھتا ہے کہ دھرنوں سے کیا ملا؟ تو میرا ہمیشہ جواب ہوتا تھا کہ ’’نئی سوچ۔‘‘ حکومت گرا لینا اتنی بڑی کامیابی نہیں جتنی کہ نئی سوچ کا آجانا ہے۔ وہ جو دعوؤں کے دھلے جن مقدس ڈبوں کی قسمیں کھاتے نہیں تھکتے تھے، آج پھر کیچڑ کے اندر دوربین لگائے بیٹھے ہیں۔ کامیابی یا ناکامی سے زیادہ ایک بات اور اہم ہوتی ہے کہ آپ میچ کھیلنے کا طریقہ اور ٹرینڈ سکھا جائیں۔ آپ خود سوچیں اگر دھاندلی کا شور نہ ڈلتا، تو آج کا دن کیسے آتا؟ جب لوگ بائیو میٹرک ٹیکنالوجی کے بارے میں سوچتے پھر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جدو جہد کے دوران میں سردی بھی آئی گرمی بھی آئی، حبس بھی تھی بارش بھی تھی۔ تشدد کی آندھیاں بھی چلیں مایوسی نے بھی ٹائیگرزپر حملے کیے۔ تنہائی بھی مقدر بنی ۔ جیت آخر ستاروں کے اس پار دیکھنے والوں کی ہوئی۔ جیت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر وکٹ اڑا دی جائے، مؤقف کا تسلیم کیے جانا سب سے بڑی جیت ہوتی ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ ہمیں اب قسم توڑ کر تبدیلیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا شروع کردینا چاہیے۔ ہرکوئی جانتاہے کہ ہمارے ریفرنڈم ہوں یا الیکشن، کس قدر Muddyہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔ آج تک ہر کوئی اس کیچڑ میں سے اقتدار کے گھونگھے تلاش کرتا رہا۔ یہ نعرہ لگانے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ خداکے بندو، کنوئیں کے مینڈکو، ادھر ادھر دیکھو ان ملکوں کو جنھوں نے تمھیں جمہوریت کا راگ الاپنے کی عادت لگائی ہے۔ دیکھو، وہاں ووٹ کی کیا ویلیو ہے، کیا تقدس ہے؟ خان صاحب اگر اس طرف انگلی نہ اٹھاتے، تو ’’مٹی پاؤ اسکیم‘‘ جاری رہتی او ر ساتھ ہمارا ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا رونا دھونا بھی مزید خوف ناک ہوتا جاتا۔

مجھ سے جب بھی کوئی پوچھتا ہے کہ دھرنوں سے کیا ملا؟ تو میرا ہمیشہ جواب ہوتا تھا کہ ’’نئی سوچ۔‘‘ (Photo: Dunya News)

آج وقت ہے کہ ہم سب اپنی ذات کی ونڈو سے باہر جھانک کر اپنے مستقبل کے روشن ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ پراجیکٹس سے پہلے ہمیں اپنے سسٹم کو بہتر بلکہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی شہری کو جب شک نہیں کہ ہمارا ہر محکمہ اور قانون محض مذاق ہے، تو کیسی ترقی اور کیسے منصوبے؟ میرٹ پر کام کرنا کافی مشکل ہے لیکن اس کے ثمرات بے حساب ہیں۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ تاریخ اس کو یاد رکھے گی۔ جو نئی سوچ، نیا سورج، نئے ستارے افق پر دکھائے گا۔ خواب اور ستارے دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ ہاں، ہے ذرا مشکل اور تکلیف دہ عمل۔ اس تکلیف کے علاج کے لیے کسی نے لکھا ہے:
"The most important thing about suffering is not what happens to us but how we react to it.”
جب کوئی ری ایکٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، تو حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہمیں بہ حیثیت قوم، حکم ران، عوام اور افسران ری ایکٹ کرنے کا فن قطعی نہیں آتا۔ آسمان صاف ہو رہا ہے۔ اندھیرا چھٹ رہا ہے۔ امید ہے کہ ہم ستارے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ بیانات اور الزامات کے طوفان جب دو سال ستاروں کو اوجھل نہیں کرپائے، تو مزید کوشش بھی بے کار ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ عادت سے مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے نصیب میں دھول مٹی ہوتی ہے۔ عادتیں عمر اور وقت کے ساتھ پختہ ہوجاتی ہیں۔ شاید اسی لیے سر کے ساتھ جاتی ہیں۔ انھی عادتوں کی بہ دولت ہی تو دو سالوں سے سر اوکھلی میں پھنسا ہوا ہے۔ آخر دھمکیوں سے نہ ڈرنے کے نعرے لگانے والے آج بد حواس ہیں۔
مشورہ مفت کا ہے اور عزت حاصل کرنے میں مدد گار بھی کہ کیچڑ کی بہ جائے ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ ویسے ہر خاص و عام اس پڑیا کو استعمال کرتاہے۔

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔