استقبالیہ سیشن کے اختتام پر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ جب کہ پچھلے دن سپر مارٹ سے نکلتے وقت ’’کیکو‘‘ کا گلابی مسکراتا چہرہ میرے ذہن کے پردے پر گویا کسی متحرک فلم کی طرح بار بار بدلتے سین میں دکھائی دے رہا تھا۔ ’’کیکو‘‘ سے ملنے کی خواہش نے میرے دل میں انگڑائیاں لینا شروع کیں۔ اس لئے میں بے اختیار آئی ہاؤس سے نکلا اور سیدھا سپر مارٹ کی جانب چلنے لگا۔ جیسے ہی میں سپر مارٹ پہنچا، تو دروازہ بند تھا۔ کسی گاہک کو اندرجانے کی اجازت نہیں تھی۔ کیوں کہ رات کے دس بج چکے تھے۔ سپر مارٹ کو بند پا کر میرا دل بیٹھ سا گیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آئی ہاؤس کی طرف چلنے لگا۔ میرے سامنے دیو قامت موری ٹاؤر کے اندر ہزاروں قمقمے روشن تھے۔ سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ میرے سامنے زیادہ تر دکانیں بند ہو گئی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد میں آئی ہاؤس کے بیرونی گیٹ سے اندر داخل ہوا، تو فرنٹ ڈسک پر عملے کی خوش آمدید کہنے کی آواز نے مجھے خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا۔ میں لفٹ کے اندر داخل ہوا اور دوسری منزل کے 214 نمبر کمرے میں داخل ہوگیا۔
جاپان میں ہمارا پروگرام باقاعدہ طور پر شروع ہوا، تو پہلے مرحلے میں ہر فیلو کو اپنے ملک اور موضوع پر پریزنٹیشن دینا تھی۔ اس کیلئے باقاعدہ طور پر سیمینارز منعقد کئے گئے جو دو دن جاری رہے۔ ان سیمینارز میں تمام فیلوز کے علاوہ اے ایل ایف پی سٹاف اور چند پروفیسر صاحبان بھی ہوتے تھے۔ ہر پریزنٹیشن کے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ چل پڑتا۔ یہاں یہ بات مجھے بے حد بھائی کہ یہاں ہر سیشن، سیمینار، کانفرنس یا ورکشاپ میں سوال و جواب کے لئے باقاعدہ وقت مختص ہوتا ہے اور یہ روایت تقریباً پورے جاپان میں یکساں طور پر قائم ہے۔
پہلی پریزینٹیشن سروج کی تھی جس نے ایشیا میں کہر اور گردو غبارو کی آلودگی پر تفصیل سے بات کی اور کہا کہ دھویں اور کہر کی آلودگی سے انڈونیشا، ملایشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ سمیت پورا ایشیا متاثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلدلی کوئلے والی زمینیں کاربن کے سب سے بڑے ذخیرے ہوتی ہیں اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تمام دلدلی کوئلے والی زمینوں پر جنگلات ہیں، جہاں کثرت سے آگ لگتی ہے۔ اسی آگ سے جو دھواں اور کہر نکلتا ہے، اس سے ہی شدید قسم کی فضائی آلودگی پیدا ہوتی اور پھیلتی ہے۔ پچھلے کئی دہائیوں سے اس سے یہاں کے ماحولیات میں منفی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے سالانہ تین ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج ہوتی ہے جوکہ بین الاقوامی اخراج کا چالیس فی صد حصہ بنتا ہے۔ ایشیا میں ان جنگلات سے خارج ہونے والی فضائی آلودگی افریقہ اور لاطینی امریکہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔ان جنگلات کے جلنے سے نہ صرف معاشی نقصان ہو رہا ہے بلکہ اس سے یہ ریجن شدید ماحولیاتی نقصان کے لپیٹ میں بھی ہے جس پر جلد ازجلد قابو پانا انتہائی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں آسیان (ASEAN) کے ممالک میں باقاعدہ معاہد ہ کے تحت روڈمیپ بنایا گیا ہے جس پر کامیابی سے عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایشیا کے تمام ممالک کو مل کر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا ہوگا، تاکہ اس کے منفی اثرات سے نہ صرف ایشیا بلکہ پور ی دنیا کو بچایا جاسکے۔
دوسری پریزنٹیشن میری تھی جو پاکستان میں گندھارا تہذیبی ورثہ کو محفوظ بنانے اور اس سے پورے ایشیا میں امن و سلامتی لانے کے حوالے سے تھی۔ میرا مؤقف تھا کہ قومیں، مذہب اور ثقافتی ورثہ پر لڑائیاں لڑتی ہیں اور دشمنیاں کرتی ہیں۔ نوے کی دہائی میں ہندو انتہا پسندوں نے جب بابری مسجد کو شہید کیا، تو ردعمل کے طور پر مسلمانوں نے ہندوؤں کے مندروں کو گرا ڈالا۔ ڈھیر سارے سکھوں کے گرودواروں اور بدھ مت کے مقدس آثار کو بھی نقصان پہنچایا، جس سے پتا چلتا ہے کہ لوگ اپنے مذہب اور ثقافتی ورثہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اس پر جان تک نچھاور کرتے ہیں۔ اب اگر ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کے مقدس مقامات کا احترام کرتا ہے، تو یقینا ردعمل کے طور پر مؤخرالذکر بھی اولذکر کے مذہب کا احترام کرے گا۔ اسی لئے سوات اور خیبر پختونخواہ میں بدھ مت، ہندو مت اور دوسری تہذیبوں کے مقدس آثار ’’آرکیالوجی‘‘ کی شکل میں موجود ہیں جس کو محفوظ کرنے سے نہ صرف ہم علم اور تحقیق کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں بلکہ ایشیا میں رہنے والی اقوام کے درمیان مذہبی ہم آہنگی، روادری اور امن کی نئی راہیں بھی کھول سکتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ ان قدیم تہذیبی آثار کو دیکھنے کے لئے پوری دنیا سے سیاح اور بدھ مت کے پیروکار زیارت کی خاطر آئیں گے جس سے سیاحت کو دوام ملے گا اور یہاں کے عوام کو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔
تیسری پریزنٹیشن انڈونیشیا کے ’’سودی‘‘ کی تھی جو ایشیا میں عمر رسیدہ افراد کے بارے میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایشیا میں زیادہ تر ممالک آبادی کے مسائل سے دو چار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایشیا میں ایک طرف اگر آبادی میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسر ی طرف عمر رسیدہ افراد کی عمر میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جو ایشیا کو پوری دنیا میں آبادیاتی لحاظ سے اہمیت کا حامل ٹھہراتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ طور پر ایشیا کی آبادی 4.2 بلین ہے جو 2050ء تک تقریباً 5.9 بلین تک پہنچ جائے گی۔ یوں ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں چارگنا اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جاپان سمیت کئی ممالک میں نئے بچوں کی پیدائش میں تیزی سے کمی بھی واقع ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو رہا ہے جہاں عمر رسیدہ افراد کی عمروں میں اضافہ ہورہاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف اگر لوگوں کی عمروں میں اضافہ، معیارِ زندگی اور جدید ترقی کے مرہون منت ہے، تو دوسری طرف یہ ایک مسئلہ بھی ہے۔ کیو نکہ زیادہ تر نئی نسل بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہے، جس سے آبادی میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی ممالک کو بہرصورت اس مسئلہ کے حل کے لئے کام کرنا ہوگا۔
چوتھی پریزنٹیشن چینی فیلو’’ وانگ شین‘‘ کی تھی جس کا موضوع چین میں پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات اور رسائل کے مطالعہ میں تیزی سے زوال کے متعلق تھا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے یلغار کے ساتھ سمارٹ فون کی آمد نے لوگوں سے اخبار اور میگزین کے مطالعے کا رواج چھین لیا ہے۔ اس وجہ سے اخبار کی انڈسٹری زوال پذیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی خاص کر چین میں صنعتی اور تجارتی انقلاب اور اس کے ساتھ ساتھ آنے والی ترقی نے لوگو ں میں مطالعہ کاذوق ختم کردیا ہے۔ تاہم بقول اس کے جاپان میں اب بھی لوگ اخبار پڑھتے ہیں اور اس لئے وہ جاپان کی اخبارات کی صنعت کا مطالعہ کرنے کیلئے آئی ہے، تاکہ انہیں وہ عوامل معلوم ہوسکیں جنہوں نے جاپانیوں کو اخباروں کے مطالعے سے جوڑے رکھا ہے۔
پانچویں پریزنٹیشن ہماری جاپانی فیلو ’’آیاکو‘‘ کی تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ آیاکو پورے جوبن پر تھی۔ وہ جہاں بیٹھی ہوتی،تو مردانہ نظریں ضرور وہاں کا رخ کرتیں اور یہی وجہ ہے کہ جب آیاکو پریزنٹیشن کے لئے کھڑی ہوئی، تو تمام مردوں میں جان سی آگئی۔ اس کا موضوع جاپان میں نفرت آمیز تقریر اور نسلی امتیاز کا مسئلہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے تناظر میں تھا۔ آیاکو نے کہا کہ جاپان میں کوریائی باشندے صدیوں سے آباد ہیں جنہیں دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے پہلے یہاں جاپانی اپنے ساتھ لائے تھے اور اب اُن کورین کی یہ چوتھی نسل چل رہی ہے۔ پر جاپان کے کچھ لوگ انہیں قبول کرنے سے انکاری ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ ان کوریائی لوگوں کو جاپان میں ’’زائنی چی کورئین‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ’’جاپان میں رہنے والے لوگ۔‘‘ موجودہ چوتھی نسل کا تعلق کوریا سے ختم ہوچکا ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ جاپان میں پیدا ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو ’’جاپانی‘‘ کہتے ہیں۔ پھر بھی جاپانی حکومت ان کو جاپانی قومیت دینے سے انکاری ہے۔ تاہم تمام جاپانی ان سے امتیازی سلوک نہیں برتتے اور ان کو مساوی حقوق دینے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرت آمیز مواد کی تشہیر میں سوشل میڈیا یعنی فیس بک نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔
چھٹی پریزنٹیشن ’’دُک‘‘ کی تھی جو ایشیا میں ہائیر ایجوکیشن کے متعلق تھی۔ انہوں نے کہا گو کہ ایشیائی ممالک کا اعلی تعلیمی نظام تقریباً یکساں ہے، تاہم جاپان میں عملی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور یہاں کا تعلیمی نظام طلبہ کو اپنے انحصار پر کام کرنے کے لائق بناتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام کا بھی موازنہ کیا اور امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام کا بھی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دنیا کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوچکی ہے جس کے ساتھ تعلیمی تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ اب تمام تعلیمی نظام کو جدید تقاضو ں پر استوار کرنا ہوگا۔ انہوں نے نیلسن منڈیلا کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’تعلیم وہ طاقتور ہتھیار ہے جس سے ہم پوری دنیا کو تبدیل کرسکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس با ت پر زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایشیائی ممالک کی تمام یونیورسٹیاں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ ان کے بقول زیادہ تر ایشیائی یونیورسٹیوں میں پرانی اور روایتی تحقیق چلی آ رہی ہے اور پڑھائی کا طریقۂ کار بھی کافی پرانا ہوگیا ہے جو کہ جدید دنیا کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ جدید تعلیمی نظام میں جہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے، وہاں طلبہ میں تجزیاتی مطالعہ اور عملی تحقیق کی روایت ڈالنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایشیا میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیاں بنانا لازمی ہوچکا ہے، تاکہ ہمارے بچے بھی دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی جدید یونیورسٹیوں کی تعلیمی دوڑ میں شامل ہوسکیں۔
ساتویں پریزنٹیشن ’’سمیتا‘‘ کی تھی جو ہندوستان میں دلیت قوم کی عورتوں کی حالت زار پر تھی۔ انہوں نے ہندوستان میں ذات پات کی تقسیم سے بات شروع کی اور کہا کہ نچلی ذات کی خواتین بے شمار مسائل سے دوچارہیں جن میں امتیازی برتاؤ سر فہرست ہے۔ انہوں نے دلیت خواتین کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ان میں زیادہ تر خواتین اپنا پیٹ پالنے کے لئے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اب حالات بدل رہے ہیں، ایسی کئی دلیت تعلیم یافتہ خواتین ہیں جو دیگر خواتین کیلئے لڑ رہی ہیں۔ یہ خواتین معاشرتی میدان کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ مودی حکومت سے بھی نالاں نظر آئیں اور کہا کہ اس دور میں ہندوستان کی تمام اقلیتیں امتیازی سلوک کی زد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح دلیت نوجوان لڑکیوں کو مندروں میں جنسی طور پر استعمال کی خاطر رکھا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔