کبھی ہم سوات کو ’’پاکستان کی جنت‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلند و بالا پہاڑ، ہرے بھرے جنگلات، بل کھاتی ندیاں، برف سے ڈھکی چوٹیاں اور وہ خوش گوار ہوا جو انسان کے وجود کو تازگی بخشتی تھی۔ پنجاب اور سندھ جیسے گرم علاقوں سے لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں یہاں کا رُخ کرتے تھے، تاکہ چند دن سکون سے گزار سکیں…… مگر اس سال، سوات کے باسی خود حیران ہیں کہ وہ علاقہ جو کبھی ٹھنڈک، سکون اور سرسبزی کی علامت تھا، اب گرم ہواؤں سے کیوں جھلس رہا ہے؟
درجۂ حرارت اُس سطح کو چھو رہا ہے، جہاں پنکھا، اے سی یا برف کا پانی بھی بے اثر محسوس ہوتا ہے۔ چشمے خشک ہونے لگے ہیں، پہاڑوں سے بہتا پانی کم زور دھار بن چکا ہے، اور وہ گھنے درخت جن کے نیچے بیٹھنا ایک نعمت سمجھا جاتا تھا، اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان سب تبدیلیوں کی وجہ صرف ایک ہے، انسان کا فطرت سے بڑھتا ہوا تصادم۔
سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں گذشتہ چند برسوں سے ایک اور خطرناک رجحان سامنے آ رہا ہے، جنگلات میں بار بار لگنے والی آگ۔ اس عمل نے نہ صرف ہزاروں درختوں کو راکھ کردیا، بل کہ جنگلی حیات، نایاب پرندوں اور قدرتی حیاتیاتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ المیہ یہ ہے کہ ان واقعات کی شفاف اور سنجیدہ تحقیقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محکمۂ جنگلات نے آگ کے محرکات جاننے کی کوئی واضح کوشش کی ہے، اور نہ کسی سرکاری انکوائری رپورٹ نے ہی یہ بتایا ہے کہ مذکورہ آگ حادثاتی ہے، انسانی غفلت کا نتیجہ ہے، یا کسی منظم سازش کا حصہ؟ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے متعلقہ ادارے بھی جانتے ہوں کہ یہ سب کس کے ہاتھوں ہو رہا ہے، مگر زبان بند رکھنا ہی ان کی پالیسی ہے۔ یہی خاموشی آگ لگنے کے عمل کو مزید بے خوف اور تسلسل کے ساتھ دہرانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔
جب درخت جلتے ہیں یا کاٹے جاتے ہیں، تو درجۂ حرارت میں اضافہ ایک فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ درخت ’’قدرتی کولر‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ زمین کو ٹھنڈا رکھتے ہیں، آکسیجن مہیا کرتے ہیں، بارشوں کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں اور فضا سے ’’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘‘ جذب کرتے ہیں۔ ایک مکمل بالغ درخت سالانہ کم از کم 22 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے، اور چار بالغ انسانوں کے لیے کافی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ جب ہزاروں درخت ختم ہوجائیں، تو اس کا اثر صرف ماحولیاتی توازن پر نہیں، انسانی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ جیسا کہ ہم سوات میں دیکھ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے شجر کاری مہمات بھی صرف کیمروں اور سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔ پودے لگانے کی تصاویر تو شائع ہوتی ہیں، لیکن ان کی نگہ داشت، پانی، حفاظت اور نمو کو کوئی نہیں دیکھتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو پودے لگتے ہیں، وہ جلد مرجھا جاتے ہیں، اور زمین مزید بنجر ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہمیں مان لینا چاہیے کہ اگر سوات جیسے علاقے میں بھی گرمی ناقابلِ برداشت ہو رہی ہے، تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم نے درختوں کو کاٹ کر اپنے لیے سایہ نہیں، بل کہ تپتی دھوپ کو خریدا ہے۔ ہم نے پہاڑوں کو ننگا کرکے بارش کے نظام کو بگاڑا ہے، چشموں کو خشک کیا ہے اور پرندوں کے گھروں کو جلا کر خود اپنی فضا کو آلودہ کیا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ماحولیاتی تحفظ کو ایک غیر متعلقہ موضوع نہیں، بل کہ اپنی روزمرہ زندگی کا مسئلہ سمجھیں۔ سوات جیسے علاقوں میں جنگلات کے تحفظ کے لیے فوری، مضبوط اور مستقل بنیادوں پر اقدامات ضروری ہیں۔ صرف درخت لگانا کافی نہیں، ان کی حفاظت اور نگہ داشت بھی ضروری ہے۔ مقامی افراد، طلبہ، دینی مدارس، اسکولوں، سیاحتی گروپس اور حکومتی اداروں کو مشترکہ طور پر ایک مربوط حکمتِ عملی بنانی ہوگی۔
اگر ہر اسکول، ہر مسجد، ہر یونین کونسل کو سالانہ مخصوص تعداد میں درخت لگانے اور ان کی دیکھ بھال کی ذمے داری دی جائے، تو سوات کو دوبارہ سبز کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہر سیاح، ہر ہائیکر، ہر نوجوان ایک پودا اپنے ساتھ لے کر پہاڑوں میں لے جائے اور واپس آتے ہوئے اسے زمین کے سپرد کرے، تو صرف تصویری یادیں نہیں زندہ نشان بھی پیچھے چھوڑے جا سکتے ہیں۔
گرمی کو کم کرنے اور سیلاب سے بچاو کے لیے دریاؤں اور ندیوں کے کنارے ایسے درخت اور پودے لگانا بہت ضروری ہے، جو مضبوط جڑوں کے حامل ہوں اور مٹی کو سیلابی پانی کے کٹاو سے بچائیں۔ ایسے درخت جیسے پیپل، شیشم، کیکر، نیم، برگد، جامن اور بیری سوات اور آس پاس کے علاقوں کے لیے خاص طور پر موزوں ہیں۔ کیوں کہ یہ مقامی ماحول اور پانی کی کمی کے باوجود اچھی نشو و نما پاتے ہیں اور ہوا کو ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔ گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دفاتر جیسے اندرونی یا محدود جگہوں پر بھی ایسے پودے لگانا ضروری ہے، جو فضائی آلودگی کو کم کریں اور ماحول کو خوش گوار بنائیں۔ سنیک پلانٹ، پیس لیلی، اسپائڈی پلانٹ، ایلویرا، تلسی، پودینہ اور آلوورا جیسے پودے اندرونی ہوا کو صاف کرتے ہیں، ذہنی سکون میں اضافہ کرتے ہیں اور صحت کے لیے مفید ہیں۔ ہسپتالوں میں ایسے پودے رکھنا ضروری ہے، جو ہوا کو صاف کریں اور ماحول کو تازگی بخشیں، جیسے گھریلو پودے فیکوس (گھریلو برگد) اور دیگر ایسے پودے جو آکسیجن بڑھاتے ہیں اور مریضوں کی جلد صحت یابی میں مدد دیتے ہیں۔ گھروں کی چھتوں یا باغیچوں میں مقامی درخت لگانے کا عمل نہ صرف گرمی کو کم کرتا ہے، بل کہ ماحول کو بھی صحت مند رکھتا ہے ۔ ان درختوں اور پودوں کی حفاظت کے لیے مناسب آب پاشی، چراگاہوں سے تحفظ اور جنگلات میں آگ لگنے سے بچاو کے لیے مقامی کمیونٹی کی شمولیت ضروری ہے، تاکہ یہ قدرتی نظام برقرار رہ سکے اور موسمی اثرات سے بچاو ممکن ہو۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم نے فطرت کی نعمتوں کی حفاظت نہ کی، تو وہ دن دور نہیں جب سوات جیسے علاقے بھی کراچی کی گرمی میں لپٹے نظر آئیں گے اور وہ پہاڑ جنھیں ہم ہمیشہ ٹھنڈک، سکون اور سرسبزی کی علامت سمجھتے تھے، وہ ہماری بے حسی اور غفلت کا استعارہ بن جائیں گے ۔
درخت لگانا اب نیکی نہیں، ضرورت بن چکا ہے، اور جو قومیں ضرورتوں سے غفلت برتتی ہیں، اُن کے حصے میں صرف پچھتاوا آتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
