5 جولائی کے اثرات

Blogger Sajid Aman

انگریزوں نے برصغیر میں اپنی حکم رانی کو طول دینے کے لیے مقامی مذاہب میں مداخلت کی۔ مذہبی فہرست میں از سر ِنو ترجیحات ترتیب دیں۔ جہاں سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا، اُن مذاہب کو بلند مقام دیا اور جن سے اندیشہ تھا، اُنھیں فہرست کے آغاز میں رکھا۔
اسی مداخلت نے برصغیر کے تمام مذاہب میں عبادات، دعا، بد دعا اور ثواب کو مرکزی اہمیت دے کر، مذاہب کی اصل روح یعنی ’’بہتر انسان اور بہتر سماج‘‘ کے تصور کو پسِ پشت ڈال دیا اور یوں مزاحمت کے امکانات کو ماند کر دیا۔ پھر مذہبی پیش واؤں کو ساتھ ملا کر دو سو سال گزر گئے۔
اس مذہبی جبر کے خلاف علمائے حق نے مسلسل آواز بلند کی، مگر فرنگی اس قدر مکار تھے کہ اپنے مذہبی فرقے خود ایجاد کرلیے۔ سوویت یونین کے پڑوس میں اشتراکیت سے خوف کے باعث اُنھوں نے ’’آر ایس ایس‘‘ کی بنیاد رکھی، جو اشتراکیت کو ’’ہندوتوا‘‘ کے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔ ’’احمدیہ مسلم جماعت‘‘ کے نام پر فتنہ کھڑا کیا، ’’اہلِ قرآن‘‘ کے نام پر پرویز کو شامل کیا، جو جدید تعلیم یافتہ مسلمان تھا اور دیگر ایسی جماعتیں بھی تخلیق کیں، جو آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع میں سرگرم ہیں۔ انگریز چلے گئے، مگر اُن کے وفادار باقی رہے ۔
دنیا میں اشتراکیت کے چار ماڈلز اپنائے گئے۔ سوویت یونین اور بعد ازاں چین میں انقلابی اشتراکیت کے ذریعے اقتدار مزدوروں اور محنت کش طبقے کے ہاتھ آیا۔ تمام پیداوار اور ذرائع پیداوار، کمیونٹی کی ملکیت میں چلے گئے ۔ نجی ملکیت کی محدود اجازت دی گئی اور ریاستی کنٹرول مزدور اور کسان حکومت کے پاس رہا۔
یوگوسلاویہ نے ’’مارکیٹ سوشل ازم‘‘ اختیار کیا، جہاں محدود نجی ملکیت کے ساتھ پیداوار ریاست کے تحت کمیونٹی کی ملکیت رہی۔ بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت) بلا تفریق اور مساوی انداز میں فراہم کی گئیں۔ اضافی پیداوار کو ریاست کے باہر کم منافع پر بیچنا جائز سمجھا گیا، جس کی بہ دولت یوگوسلاویہ کی مصنوعات عالمی منڈی میں کم قیمت اور دیرپا ہونے کی وجہ سے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کو چیلنج کرنے لگیں۔ ہر غریب کے گھر رنگین ٹی وی، فریج اور سائیکل پہنچے۔ ہمارا معاشرہ بھی ان مصنوعات سے مستفید ہوا۔
اس طرح بھارت میں جمہوری اشتراکیت کا نظام قائم ہوا۔ پہلا پنج سالہ منصوبہ 1948ء سے شروع ہوا اور 1952ء تک زرعی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ زرعی اصلاحات کی گئیں۔ دوسرے پنج سالہ منصوبے میں صنعتی انقلاب لایا گیا اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جو آج بھی جنوبی ایشیا میں عالمی معیار رکھتے ہیں۔ نتیجتاً بھارت دنیا میں سب سے زیادہ سائنس دان پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔
اس طرح تیسرے منصوبے میں تسلسل برقرار رہا، جب کہ چوتھے منصوبے میں بینکوں کو قومیایا گیا اور کسانوں اور مزدوروں کو بلاسود قرضے فراہم کیے گئے۔ 1970ء کی دہائی میں اندرا گاندھی اقتدار میں آچکی تھیں اور منصوبے کو کام یابی سے چلا رہی تھیں۔
انگریز ’’کانگریس‘‘ پر شک کر رہے تھے، اس لیے برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ پاکستان کو اشتراکی نظریات کے خلاف ایک فرنٹ کے طور پر قائم کیا گیا۔ مشرقی پاکستان، اشتراکی نظریات سے متاثر ہو چکا تھا اور ایک انقلاب سر اٹھا رہا تھا، جو مغربی پاکستان اور سوویت یونین کے قریب ترین خطے کو لپیٹ میں لے سکتا تھا۔ وہاں ایک غیر حقیقی تحریک کھڑی کی گئی، پُرتشدد واقعات رونما کیے گئے اور بعد ازاں اُس تحریک کو ناسور قرار دے کر کاٹ دیا گیا۔ انقلاب اور علاحدگی کی قیادت کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور ایک وفادار شخص کو بٹھا کر انقلابی راستے کو بند کر دیا گیا۔
مغربی پاکستان میں شکست کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی مساوات‘‘ کا نعرہ بلند کیا، جسے حیرت انگیز طور پر پذیرائی ملی۔’’سرخ ہے سرخ، ایشیا سرخ ہے!‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔ فوج شکست خوردہ تھی، ایک لاکھ قیدی تھے، کوئی مزاحمت ممکن نہ تھی۔ بھٹو کو اقتدار ملا اور ’’اسلامی مساوات‘‘ کے انقلاب کا آغاز ہوا۔ زرعی اصلاحات کی گئیں۔ نجی ملکیت میں موجود صنعتوں کو قومیایا گیا۔ بینک، نجی تعلیمی ادارے ، حتیٰ کہ اخبارات کی نجی ملکیت بھی ختم کر دی گئی۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ ’’یہ کوئی خدائی قانون نہیں کہ غریب ہمیشہ غریب رہے، یہ سرمایہ داروں کی حکم رانی ہے، جو غریب کو غریب رکھتی ہے اور خود امیر ہوتی جاتی ہے۔‘‘
بھٹو نے بھاری صنعتوں کی بنیاد رکھی، واہ میں ہیوی مشینری کی تیاری کا ادارہ قائم کیا، جو آج بھی موجود ہے، مگر غیر فعال یا صرف عسکری مقاصد کے لیے محدود ہے۔ اسی ادارے نے شوگر ملز تیار کیں، کراچی اسٹیل ملز، بندرگاہ اور کئی بڑے منصوبے تشکیل دیے …… مگر سرمایہ دارانہ اشرافیہ اور عالمی سرمایہ داروں کو یہ سب گوارا نہ تھا۔ انگریزوں کے بعض پالتو مذہبی سیاسی گروہوں نے سخت دباو ڈالا، ’’نظامِ مصطفی‘‘ کی تحریک چلائی، اصل ہدف ’’اسلامی مساوات‘‘تھا۔
بھارت میں ’’آر ایس ایس‘‘ کے ہاتھوں گاندھی قتل ہوچکے تھے، یہاں بھٹو کو اسی فکر کے تحت پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا گیا اور ’’انقلاب‘‘ لپیٹ دیا گیا۔
ضیاء الحق مغرب کے ایما پر ’’امیر المومنین‘‘ بن کر اقتدار پر قابض ہوگیا اور انعام میں مذہبی گروہوں کو مجلسِ شورا میں بٹھا کر اقتدار میں شریک کیا گیا۔ یہی گروہ بعد ازاں ’’افغان ثور انقلاب‘‘ کے خلاف صف آرا ہوئے۔ مغربی جنگ کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت میں پیش پیش رہے۔ نتیجتاً ایشیا سے اشتراکی انقلاب کا خاتمہ ہوا۔
سرحد کے اُس پار نہرو خاندان کو نشانہ بنایا گیا۔ اندرا گاندھی، سنجے گاندھی اور راہول گاندھی سب قتل کیے گئے۔ اِس پار بھٹو کو پھانسی دی گئی، اُن کے دونوں بیٹے مارے گئے اور بے نظیر بھٹو کو سرِعام قتل کیا گیا۔ یہ دراصل سرمایہ داروں کا پیغام تھا کہ وہ اپنے نظام کے دفاع کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک منظم جرم ہے، جس میں جنگ، قتل، سب کچھ جائز ہے۔
ضیاء الحق نے مذہب کے نام پر دھوکے پر دھوکا کیا۔ اپنے آقاؤں کے حکم پر افغان خون بہایا، جو آج تک بہہ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں، جمہوری اور انسانی حقوق سلب رکھے۔
اور پھر ایک دن، مغرب نے اُسی ضیا کو ساتھیوں سمیت فضا میں اُڑا کر راکھ کر دیا، کیوں کہ اب اُس کی ضرورت باقی نہ رہی تھی۔ دراصل سوویت یونین کا خوف ختم ہوچکا تھا، اشتراکی نظریات ماند پڑ چکے تھے اور سرمایہ دار دنیا کی واحد سپر پاؤر بن چکے تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے