سال 2014ء میں ایک قانون ’’ریور پروٹیکشن‘‘ (River Protection) کے نام سے بنا ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت حکومتی اہل کار کبھی کبھار جوش میں آکر کچھ مشینری لے کر جاتے ہیں اور دریائے سوات کے کنارے بنی عمارات کو گرا دیتے ہیں۔
اب اُن کو سیالکوٹ کے ایک ہی خاندان کے 16 افراد کی دردناک موت کی وجہ سے ایک بار پھر بہانہ ہاتھ آیا ہے اور وہ تجاوزات کو ہٹانے میں ’’تجاوز‘‘ سے کام لے رہے ہیں۔ منھ اُٹھا کر کسی کی بھی عمارت کوگرا رہے ہیں۔
یہ افراتفری اور بوکھلاہٹ ہے۔ دریائے سوات کے آس پاس آبادیاں ہٹانے کے بہترین مواقع سنہ 2010ء اور 2022ء کا سیلاب تھے۔ اُن سیلابوں نے کئی عمارات کو تو خود ہی صاف کردیا تھا، مگر کیا اُن کے بعد دریا کو بجری اور ریت کے لیے کھودنے سے منع کیا گیا؟ حکومت نے خود اسے بیچ کر اور کرش مافیا کی نگرانی کرکے دریا کے پاٹ اور راستے تبدیل کردیے، جس کی وجہ سے مینگورہ بائی پاس جیسا دل خراش واقعہ پیش آیا۔
عمارات ایک طرف، لیکن کیا کسی حکومت اور اس کے قانون نے سوچا ہے کہ اس دریا کے کنارے 2010ء تک ہرے بھرے کھیت تھے، جو اَب پتھر اور بجری کی شکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ کھیت بھی کسی کے نام تھے، بل کہ پٹوار میں اَب بھی ہیں۔ کیا اُن لوگوں کو معاوضہ دیا گیا؟
یہاں قوانین کب زمینی حقائق کے مطابق بنائے جاتے ہیں؟ چاہیے تو یہ تھا کہ قانون ایسا ہو کہ جہاں سڑک ہے، وہاں دریا کی طرف کوئی آبادی نہ کی جائے اور سڑک کو حد بنایا جائے۔ اَب دو سو فٹ والی بات کی کیا ضرورت ہے کہ جس کو اگر لاگو کیا جائے، تو مدین تا اُتروڑ اور مہوڈند سب تجاوزات ہی ہیں۔ دور کیوں جایا جائے، فضاگٹ میں اور چکڑی تا کالام یہ ساری سڑک ہائی وے ’’این 95‘‘ بھی تجاوزات میں آتی ہے۔ اس سڑک کو پہلے ہٹا دیں اور اوپر لے جائیں، تب لوگ دریا کنارے آبادیاں کرنے سے باز آجائیں گے۔
مسئلہ عوام کی ایسی کسی سرگرمی میں عدم شرکت بھی ہے۔ عوام کو دور رکھ کر اور ساری تاریخ بھول کر کوئی قانون بنایا جاتا ہے، جس سے عوام کی ملکیت اور نتیجے میں رکھوالی ختم ہوجاتی ہے۔ 2002ء کی ’’فارسٹ آرڈیننس‘‘ ہی لے لیں، جس کو بعد میں قانون بنایا گیا اور جس کی رو سے جنگلات کی مد میں عوام کی ملکیت کو ختم کرکے مزید پیچیدگیاں پیدا کی گئیں اور سارے روایتی قوانین کو دفنانے کی کوشش کی گئی، جب کہ پٹوار نے ایسے کئی روایتی قوانین کو جاری بھی رکھا ہوا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
جنگلات کی روایتی ملکیت اب بھی عوام کے پاس ہے اور 60-40 فی صد کے حساب سے ان جنگلات کی رائلٹی بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ ایسے میں کیا ضرورت تھی کہ 60 فی صد والے فریق کو ملکیت سے نکال دیا گیا……!
ایسی چیزیں عوام کو بد دل کرتی ہیں اور وہ ان سرگرمیوں کو وسائل پر قبضہ کرنے کے زمرے میں تصور کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہاں توروالی پٹی میں مدین تا کالام دریائے سوات بھی پٹوار خسرہ کے تحت مقامی لوگوں کا ہے اور ریاست نے اس کوتسلیم بھی کیا ہے۔
کالام کے میدانی جنگل میں مقامی لوگوں کے مطابق درخت حکومت کے ہیں اور زمین لوگوں کی۔ یہی حالات بانڈہ جات کے ہیں۔ اب ’’ووڈ لاٹ‘‘ (Woodlot) جیسے ’’نایاب قانون‘‘ کے مطابق تو درخت بھی اُس کے جس کی زمین ہے۔ اسی ’’عجیب قانون‘‘ کے تحت جنگلات کی تباہی ہوئی ہے اور علاقے میں دریائے سوات بجری مافیا کی طرح ایک اور مافیا ’’ووڈ کاٹ‘‘ نے جنم لیا ہے، جس میں افسر شاہی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو چکی ہے۔
ریاست کو بہ ہر صورت ان وسائل کے انتظام اور استعمال میں مقامی لوگوں کی شرکت کو لازمی بنانا ہے کہ ریاست کے وجود کی عمر تو ایک عام شخص کی عمر کے برابر ہے، جب کہ یہ مقامی لوگ ان وسائل سے صدیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
ریاست اپنی مرضی سے چند اشراف یا اداروں کے تحفظ کے لیے مسلسل آئین سے تجاوز کر رہی ہوتی ہے، بل کہ اپنی خفیہ طاقت سے عدالتوں کے بازو مروڑ کر اپنے چنیدہ لوگوں اور اُن کے سرپستوں کو فائدہ دیتی چلی آ رہی ہے۔ ایسے میں خاک کوئی ریاست کے قوانین پر بھروسا کرے گا……!
سیاحت کی مد میں جو سڑکیں بنائی جاتی ہیں، یا اَب جو سیاحتی زوننگ کی جارہی ہے، وہ بس ’’اشرافیہ‘‘ کو نوازنے کے لیے ہے۔ مقامی طور پر ماحولیات کے لیے تباہ کن تو ہے ہی، ساتھ بہت جلد عوام کو بھی اُن کی زمینوں سے فارغ کردے گی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
