کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جنھیں آپ اُستاد سمجھتے ہیں، مگر دراصل آپ خود اُن کے شاگرد ہوتے ہیں، اور اِس بات کا ادراک صرف وقت ہی دیتا ہے۔
2018ء میں، جب پرانی زندگی نے تھکا کر نئی زندگی کی بنیادیں رکھنے پر مجبور کیا، تو چند ہی ہاتھ تھے، جنھوں نے مدد کی۔ چند ہی زبانیں تھیں، جن کے الفاظ سے حوصلہ ملا۔ ایک چھوٹا سا، کم گو، سہما ہوا اور شرمیلا سا بچہ ایک سفارش کے ساتھ آیا کہ یہ آفس میں کام کرے گا، رکھ لیں۔ اتنی سکت مجھ میں بھی نہیں تھی کہ بڑی تنخواہوں پر عملہ رکھ سکوں۔ ایاز، واحد انتخاب تھا۔ آفس اور کچن کے تمام کام سنبھال لیے۔
مَیں ایک سال تک اس کے حوالے سے حیران رہا۔ بولتا ہے ، نہ جواب دیتا ہے، عمل ایسے کرتا ہے جیسے بات کرنے سے پہلے دماغ پڑھ لیا ہو۔ مجھے ہمیشہ تجسّس رہا کہ اُس کی بات سنوں…… وہ کیا سوچتا ہے، کیا چاہتا ہے؟ کاش، تھوڑا بول دے…… مگر ایک سال میں رسمی ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ کے سوا کچھ نہیں سن سکا۔
جن لوگوں نے پہلے دن سے ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ آج بھی میرے ساتھ ہیں، مگر وہ ایاز کے بارے میں میرے سوالات سے پریشان ہو جاتے۔ مَیں نے سوچا، اور ٹیم سے بات کی کہ ایاز ہمیشہ چائے پانی تو نہیں لائے گا۔ اس کا بھی حق ہے کہ زندگی میں آگے بڑھے۔ اُس نے صرف ’’ہاں‘‘ کہنا سیکھا تھا، اُسے اسٹور میں لے آیا۔ ساتھ ہی پڑھنے کی تاکید کی۔ میٹرک کیا ہوا تھا، پرائیویٹ امتحان دینا شروع کیا۔ ایک عرصے تک اسٹور میں کام کرنے کے بعد اُسے مارکیٹ میں اُتار دیا۔ ہر سخت اور مشکل علاقہ بغیر کسی جھجک کے ڈیل کرتا رہا۔ مجھے کبھی اُس کی کوئی شکایت نہیں ملی۔ مجھے اس پر کبھی کام چوری یا مالی بدعنوانی کا شائبہ تک نہ ہوا۔ اُس نے ’’غلط کرنا‘‘سیکھا ہی نہیں تھا۔
ایاز امتحانات دیتے دیتے گریجویٹ ہوگیا۔ مارکیٹ کے تجربات نے مجھے مجبور کیا کہ جب بھی کوئی مسئلہ آئے، اُس سے مشورہ لوں اور اُس نے ہر مشورہ ایسے دیا، جیسے مشورے کا حق ادا کر رہا ہو۔
اُس کم زور سے لڑکے میں قائدانہ صلاحیتیں اُبھرتی دیکھیں، تو اُسے پورے اسٹاف کا سپروائزر بنا دیا۔ اُس نے اس کام کا بھی حق ادا کیا۔ جہاں کمی تھی، اُسے پورا کیا۔ جہاں توجہ نہیں تھی، وہاں نظر مرکوز کردی۔ یوں وہ ایک سہما ہوا، شرمیلا سا بچہ ایک پُراعتماد سیلز سپروائزر میں تبدیل ہوا۔ ایک موثر اور قوی مشیر بنا۔
مجھے اپنے بچوں سے بڑھ کر اُس پر اعتماد رہا اور اُس نے ہمیشہ میرے اعتماد کا حق ادا بھی کیا۔
ابھی کچھ دو ماہ قبل، اُس نے کسی کے ذریعے پیغام دیا کہ وہ بات کرنا چاہتا ہے۔ مَیں نے اُسے فوراً بلایا، اور جتنا اعتماد دے سکتا تھا، دیا۔ تاکہ بول سکے ۔ پھر بھی اُس نے پورے بدن کی طاقت سمیٹ کر نحیف سی آواز میں کہا: ’’بھائی جان! سعودی عرب میں ایک اچھا چانس ہے۔ آپ کی اجازت ہو، تو ہاں کردوں، ورنہ مَیں آپ کے ساتھ خوش ہوں۔‘‘
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مَیں نے کہا: ’’تیری کام یابی میں مجھے اپنی خوشی کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔‘‘
دو ڈھائی مہینے تک سارا عمل جاری رہا۔ وہ بہ دستور اپنا کام اُسی ایمان داری سے کرتا رہا۔ آج رات اُسے پورے آفس اسٹاف نے الوداعی عشائیہ دیا۔ کل (تین جولائی) کو اُس کی رات کی فلائٹ ہے۔ 3 اور 4 جولائی کی درمیانی شب، وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اُس نے آج بس اتنی سی بات کی: ’’کل کی چھٹی دے دیں، تاکہ رشتے داروں سے مل سکوں!‘‘
مَیں آنسو چھپائے، سیدھا نکل گیا، مگر وہ ظالم میرا چہرہ پڑھ لیتا ہے۔ مجھے اُس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اُس نے کبھی کوئی مطالبہ ہی نہیں کیا۔ مَیں اُسے کھونا نہیں چاہتا، اور اُس کی کام یابی کے لیے دست بہ دعا ہوں۔
یہ سب کچھ سوچ کر جب گاڑی میں بیٹھا، تو اُسے باقی لوگوں سے کہتے سنا: ’’بدھ کے دن بھائی جان سے ملنے آؤں گا، سب سے الوداع کہہ لوں گا!‘‘
مَیں نے دروازہ بند کیا اور گھر تک اُس کی کام یابی کے لیے من ہی من دعائیں کرتا رہا۔ وفاداری، دیانت داری اور سمجھوتے کا جو عملی سبق میں نے اُس سے سیکھا، پوری زندگی کوئی وضاحت نہیں دے سکا۔ اُس نے الفاظ کو جامہ پہنایا، اُنھیں اصل معنی دیے، شرافت کو مجسم کیا۔ مَیں ہمیشہ اُس کی کمی بری طرح محسوس کروں گا۔
ایاز! جاؤ اور اپنے پورے پروں کے ساتھ اُڑو، اور ہمیشہ کام یاب رہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
