سوات ایک خوب صورت وادی ہے، جو برسوں سے دہشت گردی، قدرتی آفات اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ ان حالات کے باوجود، عوام نے قربانیاں دے کر امن کو بہ حال کیا اور ترقی کی نئی راہیں تلاش کیں۔ سوات بائی پاس کا منصوبہ اسی ترقیاتی خواب کا حصہ ہے، جس کا مقصد شہر کے اندر بڑھتی ہوئی ٹریفک کو کنٹرول کرنا، سیاحت کو فروغ دینا اور شہریوں کی آمدورفت کو سہل بنانا تھا…… مگر جب یہ منصوبہ عملی مراحل میں داخل ہوا، تو اس کے راستے میں کئی قانونی و انتظامی رکاوٹیں پیدا ہوگئیں، جن میں سب سے اہم غیر قانونی تعمیرات اور زمین پر قبضے کا مسئلہ تھا۔
ابتدائی جائزوں کے مطابق، بعض افراد نے سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکے وہاں مکانات یا دکانیں تعمیر کرلیں۔ اُن تعمیرات کو ختم کرنا ریاست کا فرض بھی ہے اور قانونی حق بھی۔ تاہم، یہاں سوال یہ نہیں کہ تجاوزات کو ختم کیا جائے یا نہیں…… بل کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ کارروائی اُن قانونی تقاضوں اور انسانی اقدار کے مطابق کی جا رہی ہے یا نہیں؟
پاکستان کا آئین ہر شہری کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ ان میں ’’آرٹیکل 10-A‘‘ نمایاں ہے، جو کہ منصفانہ ٹرائل اور شفاف قانونی کارروائی کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر کسی فرد یا خاندان پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ اُنھوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے، تو یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ انھیں قانونی نوٹس دے، ان کا مؤقف سنے اور شفاف تحقیقات کے بعد ہی کسی بھی قسم کی عملی کارروائی کرے۔ بدقسمتی سے، سوات بائی پاس پر جاری آپریشن میں ان اصولوں کو اکثر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مقامی افراد کی جانب سے شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ ان کے گھروں کو بغیر نوٹس کے گرا دیا گیا، اور انھیں نہ تو سننے کا موقع دیا گیا، نہ کوئی متبادل ہی فراہم کیا گیا۔
یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ صرف تجاوزات کی موجودگی کسی علاقے کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ کئی ایسے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں، جن کے پاس زمین کے قانونی کاغذات، انتقالات، ریونیو ریکارڈ یا عدالتی احکامات موجود ہیں، لیکن اُنھیں بھی بغیر کسی تفریق کے ’’قابض‘‘ تصور کر کے کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہیں، بل کہ عوام کے ریاست پر اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
مزید برآں، سوات میں جاری یہ آپریشن سیاسی رنگ بھی اختیار کر رہا ہے۔ بعض مقامی رپورٹس کے مطابق، ایسے افراد جن کا تعلق بااثر یا حکومتی جماعتوں سے ہے، اُن کی تعمیرات کو یا تو نظر انداز کیا جا رہا ہے، یا اُنھیں قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے، جب کہ عام شہریوں، کسانوں اور متوسط طبقے کے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ امتیازی سلوک ریاست کے آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ کیوں کہ آئین کا ’’آرٹیکل 25‘‘ تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابری کی ضمانت دیتا ہے ۔
عملی طور پر بھی دیکھا جائے، تو اس طرح کے سخت آپریشنز کے منفی اثرات معاشرتی سطح پر زیادہ دیر پا ہوتے ہیں۔ جب کسی خاندان کا واحد گھر ایک دن میں مسمار کر دیا جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی، احساسِ محرومی اور عدم تحفظ صرف اس خاندان تک محدود نہیں رہتی، بل کہ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ لوگ ریاستی اداروں سے بدظن ہوجاتے ہیں اور ایسے میں شدت پسندی یا مزاحمت کو فروغ ملنے کا خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقے میں جو ماضی میں انتہا پسندی کا مرکز رہا ہو۔
بہتر طرزِ حکم رانی کا تقاضا ہے کہ حکومت قانون کو نافذ کرے، مگر شفافیت، مشاورت اور انصاف کے اُصولوں کے تحت۔ اگر حکومت واقعی تجاوزات کے خاتمے میں سنجیدہ ہے، تو سب سے پہلے زمینوں کا شفاف سروے کرائے، تمام فریقین کو اعتماد میں لے اور ان افراد کے ساتھ مختلف حل تلاش کرے، جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں یا جو کئی دہائیوں سے وہاں آباد ہیں۔ اگر حکومت نے یہ اقدامات نہ کیے اور محض طاقت کے زور پر کارروائیاں جاری رکھیں، تو یہ بہ ظاہر قانونی مگر عملاً غیر منصفانہ عمل ہوگا، جو ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھا دے گا۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سوات بائی پاس پر جاری آپریشن اپنی نیت میں شاید درست ہو، مگر طریقۂ کار میں شفافیت اور انصاف کا شدید فقدان ہے۔ کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی کام یابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ عوامی اعتماد، شفاف عمل اور قانونی اُصولوں پر قائم نہ ہو۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آپریشن کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے، قانون و انصاف کو یقینی بنایا جائے اور اُن شہریوں کی عزتِ نفس بہ حال کی جائے، جنھیں اس عمل میں بغیر کسی شنوائی کے متاثر کیا جا رہا ہے۔
یہی ایک ترقی پسند، منصف مزاج اور مضبوط ریاست کی پہچان ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
