دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قومیں اور ریاستیں عروج کی بلندیوں کو چھوتی ہیں، مگر اگر اُن میں وہ اوصاف باقی نہ رہیں، جو بقا کی ضمانت ہیں، تو زوال اُن کا مقدر بن جاتا ہے ۔ ریاستیں محض جغرافیائی حدود اور قلعہ بند اداروں کا نام نہیں، بل کہ یہ انسانوں کی مشترکہ محنت، نظریات، قیادت اور نظام کا مظہر ہوتی ہیں۔
ریاست کے عروج و زوال کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، مگر تاریخ کے اوراق میں کچھ واضح اُصول موجود ہیں، جنھیں اگر نظرانداز کیا جائے، تو طاقت ور ترین سلطنتیں بھی مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
میرے ناقص علم کے مطابق ریاست کے عروج کی وجوہات ذیل میں ملاحظہ ہوں:
٭ باصلاحیت قیادت:۔ تاریخ میں جب بھی ریاست نے عروج حاصل کیا، اُس کے پیچھے ایک بے باک، صاحبِ بصیرت اور ایمان دار قیادت موجود تھی۔ حضرت عمر بن خطابؓ، نورالدین زنگی اور سلطان محمد فاتح ایسے ہی راہ نما تھے، جن کی قیادت نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔
٭ عدل و انصاف کا نفاذ:۔ ریاست کی بقا عدل کے ستون پر ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ ہو یا سلطان محمد فاتح کی قسطنطنیہ میں قائم کی گئی حکومت…… عدل کا پیمانہ ہمیشہ بلند رہا۔
٭ علم و حکمت کا فروغ:۔ ریاست کا عروج اُس وقت ممکن ہوتا ہے، جب وہ علم کو اپناتی ہے۔ عباسی دور میں بیت الحکمت اور سلطنت عثمانیہ میں مدارس، کتب خانے اور سائنسی مراکز اس کی روشن مثالیں ہیں۔
٭ قومی اتحاد و یک جہتی:۔ جب عوام اور حکم رانوں کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی قائم ہو، تو ریاست مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ خلافتِ عثمانیہ میں ترک، عرب، کرد، بربر، یونانی اور دیگر اقوام کا اتحاد اس کا زندہ نمونہ ہے۔
٭ معاشی استحکام:۔ سود سے پاک نظام، بیت المال کا موثر استعمال اور منصفانہ ٹیکس کا نظام، ریاست کی معیشت کو پائیدار بناتا ہے۔ عثمانی سلطنت نے زرعی اصلاحات، تجارت اور مالیاتی نظم و ضبط کے ذریعے صدیوں تک معاشی استحکام قائم رکھا۔
٭ سلطنتِ عثمانیہ کی مثال ایک درخشاں عہد:۔ سلطنتِ عثمانیہ، جو سات صدیوں تک تین براعظموں پر حکم ران رہی، ریاستی عروج کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ عثمان غازی سے لے کر سلیمان قانونی تک یہ سلطنت نہ صرف عسکری قوت، بل کہ علمی، عدالتی اور ثقافتی میدانوں میں بھی نمایاں رہی۔ عثمانی خلافت نے اپنے ابتدائی ادوار میں مذہب، علم، عدل اور ثقافت کو یک جا کرکے ایک ایسا ریاستی نمونہ پیش کیا، جو مغرب کی آنکھ میں کھٹکتا رہا۔ اس کی افواج نظم و ضبط، اس کے علما فہم و فراست، اس کے قاضی عدل و انصاف اور اس کے سلاطین خیر و فلاح کے نمایندہ تھے۔
اب ریاست کے زوال کی وجوہات ملاحظہ ہوں (میرے ناقص علم کے مطابق):
٭ قیادت کا بحران:۔ جب سلطنتِ عثمانیہ میں قیادت عقل و حکمت کی بہ جائے عیش و عشرت کا شکار ہونے لگی، تو زوال نے اپنے قدم جمانے شروع کر دیے۔
٭ علم و اجتہاد سے دوری:۔ جب ترک حکم رانوں نے اجتہاد کے دروازے بند کیے، علمی جمود پیدا ہوا اور مغرب کی ترقی کا جواب دینے سے قاصر ہوگئے۔
٭ داخلی انتشار:۔ ریاست میں فرقہ واریت، نسلی تعصب اور درباری سازشوں نے عثمانی وحدت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
٭ معاشی بدحالی اور سودی قرضے:۔ بیرونی قرضوں پر انحصار، یورپی طاقتوں کی معاشی غلامی اور کرپشن نے خزانہ خالی کر دیا۔ اصلاحات ناکام رہیں اور ریاست کا کنٹرول غیر مسلم مشیروں کے ہاتھوں میں جاتا رہا۔
٭ بیرونی مداخلت:۔ بالآخر پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے خلافت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ ’’سیورے‘‘ اور ’’لوزان‘‘ جیسے معاہدے اس زوال کی تاریخی مہریں بن گئیں۔
حاصلِ نشست:۔ ریاستوں کے عروج و زوال کی کہانی صرف ماضی کا تذکرہ نہیں، بل کہ حال کا آئینہ اور مستقبل کا سبق ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ریاست ترقی کرے، تو ہمیں عدل، علم، اتحاد، دیانت دار قیادت اور اقتصادی خود انحصاری جیسے اُصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ورنہ سلطنتِ عثمانیہ کی داستانیں محض کتابوں میں رہ جائیں گی اور ہم بھی تاریخ کے اندھے کنویں میں دفن ہو جائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
