پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا مطلب یہ ہے کہ موسمی لحاظ سے اور فطری اعتبار سے خوب صورت علاقوں کو کسی ’’بالا خانے‘‘ کی طرح لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ حکومتوں سمیت اس شعبے سے متعلق سارے لوگ صرف ’’دلالی‘‘ کرتے ہیں۔ اس بارے میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں نہ مقامی لوگوں کو تربیت ہی فراہم کی جاتی ہے۔
کسی حادثے کے بعد مقامی اور قومی محکمے افراتفری کے عالم میں کچھ بھی کر جاتے ہیں، مگر مستقل حل نہیں ڈھونڈا جاتا۔
اس دوران میں کوئی دریائے سوات کے اندر بجری نکالنے پر پابندی لگاتا ہے، کوئی آکر اُسی بجری کو کرش مافیا کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔
کسی کا جب جی چاہا منھ اُٹھا کر کسی ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کے تحت ایکسکیویٹر ز لے کر آبادیوں کو ڈھانا شروع کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ عام حالات میں مذکورہ تعمیراتی کاموں کو جاری رکھنے کی اجازت ’’بھاری بھر کم رشوت‘‘ لے کر دی جاتی ہے۔
بیش تر ہوٹل والے بھی صرف کمروں کے بیڈ شیٹوں سے دھول جھاڑ کر کمرے کرایہ پر دینے بیٹھ جاتے ہیں۔ اُن کے ہاں ڈھنگ کا کھانا ملتا ہے، نہ کوئی ڈھنگ کی سروس ہی فراہم کی جاتی ہے۔
یہ ہوٹل والے کبھی علاقے کے حسن اور آئے ہوئے مہمانوں کو ہدایات جاری نہیں کرتے اور نہ علاقائی ثقافت اور علاقے کی طبعی حالت کا اُن کو علم ہی ہوتا ہے۔
اتنے بڑے ’’انویسٹرز‘‘ اپنی کسی ’’سی ایس آر‘‘ ذمے داری کے تحت علاقے کی ترقی اور ماحولیات کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ دوسری جانب حکومت صرف اشرافیہ، افسر شاہی اور سیاست دانوں کو نوازنے کے لیے سیاحت و ترقی کے نام پر عجیب عجیب ادارے بناتی ہے، جن کا کام صرف ان بالا طبقے کے لوگوں اور اُن کے سفارشیوں کو ملازمتیں دیا جانا ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
