سانحۂ دریائے سوات، بدبودار نظام کی موت

Blogger Mehran Khan

دریائے سوات کی ادائیں ایسی ہیں کہ کسی کا بھی دل موہ لیں۔ لوگ زندگی کی اُلجھنوں سے نجات پانے کے لیے فرصت کے کچھ لمحے اس کے سنگ گزارنا پسند کرتے ہیں۔
صدیوں سے یہ شور مچاتا، سانپ کی طرح بل کھاتا دریا لوگوں کو اپنی کہانی سنانے کے لیے اپنی جانب کھینچتا آیا ہے اور کوئی بھی اس کی کشش سے انکار نہیں کر پاتا۔
سیالکوٹ اور مردان سے آئے ہوئے کچھ سیاح خاندان، دریائے سوات کے حسن سے متاثر ہوکر اس کی کہانی جاننے اس کے قریب گئے، مگر اُنھیں کیا خبر تھی کہ وہ خود ایسی داستان رقم کر جائیں گے، جو ریاستی بے حسی، اداروں کی مثالی غفلت اور انسانی بے بسی کی انتہا کی علامت بن جائے گی۔
وہ خوشی خوشی دریا کنارے گئے، زندگی کے خوب صورت ترین لمحات جیے۔ اس دوران میں دریائے سوات میں پانی کا بہاو تیز ہوتا گیا۔ ڈر کے مارے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ اگلے چند لمحوں میں ہر طرف پانی ہی پانی پھیل چکا تھا۔ وہ کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے، کبھی دریا کی طرف اور کبھی کنارے پر کھڑے لوگوں کو…… اُنھیں اندازہ نہیں تھا کہ کچھ ہی لمحوں بعد اُن پر قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
پہلے پہل وہ گھبرائے، مگر خود کو تسلی دی کہ ’’والیِ سوات‘‘ کے اس علاقے کا ماضی شان دار رہا ہے، تو شاید حال بھی امیدوں سے خالی نہ ہو۔
وقت گزرتا گیا، پانی کا بہاو مزید تیز ہوتا گیا، دریا کنارے لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی، ریسکیو سمیت دیگر اداروں اور افسران سے رابطے کیے گئے اور اُمید کی ایک مدھم سی شمع جلتی رہی۔
کنارے سے دیکھا جا رہا تھا کہ دریا کے بیچ پھنسے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے رہے، مگر وقت کے ساتھ بے یقینی بڑھتی گئی۔ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا، مگر کوئی مدد نہ آئی۔
پھر دریائے سوات نے درندے کا روپ دھار لیا اور پہلا انسان نگل لیا۔ انسانی بے بسی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ چیخیں، ماتم، شورسب کچھ دریا کی دھاڑ میں دب گیا۔
کنارے پر کھڑے لوگ تو کیا، آسمان بھی کھل کر رو رہا تھا۔ موت لمحہ بہ لمحہ اُن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ ایک ایسا منظر تھا، جہاں الفاظ بے جان ہوچکے تھے، چیخیں کھوکھلی ہوچکی تھیں اور جذبات ان کا احاطہ کرنے سے قاصر تھے۔
ایک شوہر اپنی بیوی کی آنکھوں میں جھانک کر اُس وعدے کی معافی مانگ رہا تھا، جو اُس نے عمر بھر ساتھ نبھانے کا کیا تھا۔
ایک ماں اپنی اولاد کی یقینی موت کے پیشِ نظر کرب کے مارے اُن سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی۔
ایک بیٹا اپنے سب سے مضبوط سہارے (باپ) کی طرف دیکھ کر مدد مانگ رہا تھا، مگر وہ بھی بے بسی سے دریا کنارے کھڑے لوگوں کو تکتا رہاکہ شاید کوئی مسیحا آ جائے۔
لیکن کوئی مسیحا نہ آیا……!
بس موت آئی…… ’’بے رحم موت۔‘‘
ایسا نہ تھا کہ موت آئی اور چلی گئی، وہ کچھ لمحے بعد، بار بار آتی رہی، ہر بار کسی نہ کسی کو چھینتی گئی، یہاں تک کہ چیخوں کے بعد سسکیاں بھی بے معنی ہو گئیں۔
جن سے امید تھی (منتخب امیدوار اور انتظامیہ) وہ سورہے تھے۔ دریا انسان نگل رہا تھا اور وہ نیند کے خمار سے باہر نہ آسکے۔
ایک ایک کرکے انسان دریا برد ہوتے رہے، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
پہلے 2022ء کا واقعہ اور اب یہ سانحہ…… یہ ہمارے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر اس خاندان کی جگہ ہم ہوتے، تو ہم بھی اسی طرح سسک سسک کر مر جاتے۔ کیوں کہ ہم کسی سیاسی خاندان یا اشرافیہ کا حصہ نہیں۔
اگر کسی سیاست دان یا بیوروکریٹ کا قریبی فرد وہاں پھنسا ہوتا، تو خدا کی قسم، اُسے فوراً بچایا جاتا۔
قیدی نمبر 804 کی بہن ’’علیمہ خان‘‘ کا واقعہ اِس نظام کا وہ آئینہ ہے، جس میں ہم جھانکنا نہیں چاہتے۔
کیا اپنی موت کے انتظار سے بڑھ کر بھی کوئی اذیت ہوسکتی ہے؟
مجھے بتائیں کہ کسی اپنے کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھنے سے بڑی بے بسی اور کیا ہوسکتی ہے؟
شاید، کسی انسان سے چاہ کے بھی دوبارہ کبھی نہ مل پانے کا دُکھ ہر دُکھ سے بھاری ہوتا ہے۔
یہ صرف اُس خاندان کی نہیں، بلکہ اس بدبودار نظام کی موت ہے۔ اُن اداروں کی موت جو ہمارا خون چوستے ہیں، اس ماں (ریاست) کی موت ہے جو صرف خوف کی فضا قائم رکھنا جانتی ہے ۔ یہ دنیا کی واحد ماں ہے جس نے اپنی اولاد کو دریا برد کرنے کی مثال دو بار قائم کی۔ اِس ماں کا نام Guinness Book of World Records میں آنا چاہیے۔
اس نظام میں عام آدمی کبھی ترجیح نہیں ہوتا۔ یہاں انسانی زندگی سے زیادہ ایک بسکٹ کی اہمیت ہے۔ یہاں زندگیاں بچانے کے بہ جائے سیاسی دشمنیاں نبھانا ترجیح ہے۔
قصوروار وہ قیدی نمبر 804 کے سپوت ہیں، جنھوں نے پورے صوبے کا نظام درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ ریسکیو جیسے حساس اداروں میں سفارشی بنیادوں پر بھرتیاں کروائی ہیں۔
قصوروار وہ بیوروکریٹس ہیں، جنھوں نے دریائے سوات کو کرش مافیا کے حوالے کیا اور پی ڈی ایم اے کی وارننگ کے باوجود کوئی حفاظتی قدم اٹھانے کا سوچا تک نہیں۔
قصوروار وہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے ہیں، جنھوں نے جان بوجھ کر مجرمانہ غفلت برتی۔ ان سب کے خلاف ایسی قانونی کارروائی ہونی چاہیے، جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔
جاتے جاتے یہی دعا ہے کہ خدا کرے کسی انسان کو زندگی میں کبھی ایسی بے بسی اور ایسا کرب نہ دیکھنا پڑے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے