پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ شہروں میں بجلی کی آنکھ مچولی، دیہات میں گھنٹوں طویل لوڈشیڈنگ اور مہنگے بلوں کا بوجھ، یہ سب عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بحران صرف وسائل کی قلت کا مسئلہ نہیں رہا، بل کہ ایک گہری نظامی، سیاسی اور اختیاراتی ناکامی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
خیبر پختونخوا اور خصوصاً سوات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خطے، جہاں بہتے دریا، جنگلات، تیز ہوائیں اور تپتی دھوپ توانائی پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں، آج بھی شدید لوڈ شیڈنگ اور کم وولٹیج کے مسائل کا شکار ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ معافی المیہ ہے۔
پاکستان کا موجودہ توانائی ڈھانچا مکمل طور پر مرکزی حکومت اور اداروں کے کنٹرول میں ہے۔ واپڈا، نیپرا اور نیشنل گرڈ جیسے ادارے ہر فیصلے پر اجارہ داری رکھتے ہیں، جب کہ سوات، دیر، شانگلہ اور چترال جیسے علاقوں کی جغرافیائی، موسمی اور مقامی ضروریات کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی روشنیوں میں بیٹھ کر جب ایک ’’یونیفائیڈ پالیسی‘‘ بنتی ہے، تو وہ سوات کی حقیقتوں سے نابلد ہوتی ہے۔ نتیجہ……؟ ایک ایسی پالیسی جو نہ عوام کو ریلیف دیتی ہے، نہ خود کفالت کی راہ ہم وار کرتی ہے۔
سوات میں نہریں اور چشمے بہتے ہیں، شمسی توانائی کے بھرپور مواقع ہیں اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت کی صورت میں چھوٹے آبی منصوبے بہ آسانی چلائے جا سکتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود سوات کے عوام آج بھی مرکزی گرڈ اور واپڈا کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہاں اصل سوال یہ نہیں کہ بجلی کیوں نہیں آتی، بل کہ یہ ہے کہ سوات کو اپنے وسائل پر اختیار کیوں نہیں؟ خیبر پختونخوا ہر سال اربوں روپے کی بجلی پیدا کرتا ہے، مگر خود اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔
اگر حکومت واقعی توانائی بحران کو سنجیدگی سے لینا چاہتی ہے، تو سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع اور دور افتادہ علاقوں میں درجِ ذیل اقدامات فوری طور پر شروع کیے جائیں:
٭ چھوٹے پیمانے پر آبی و شمسی منصوبے قائم کیے جائیں، جو مقامی سطح پر بجلی پیدا کریں۔
٭ مقامی حکومتوں کو توانائی پالیسی میں عملی اختیار دیا جائے۔
٭ قانون سازی کی جائے کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والی توانائی کا کم از کم 30 فی صد فائدہ مقامی آبادی کو دیا جائے۔
٭ یونیورسٹیوں اور نوجوان انجینئرز کو شامل کرکے ’’توانائی اختیاراتی مراکز‘‘ بنائے جائیں۔
٭ ہر ضلع میں شفاف توانائی رپورٹ جاری کی جائے، تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ بجلی کہاں جا رہی ہے اور کس حد تک وہ محروم رکھے گئے ہیں۔
وقت آ چکا ہے کہ وکلا، اساتذہ، طلبہ، سول سوسائٹی اور صحافی آگے آئیں اور توانائی کے حق کو آئینی اور قانونی جد و جہد کے ذریعے منوائیں۔ بجلی صرف سہولت نہیں، بنیادی انسانی حق بن چکی ہے۔ اگر عوام خاموش رہے، تو بحران مزید گہرا ہوگا۔ اگر عوام بولے، تو شاید روشنی واپس آ جائے ۔
توانائی کا بحران ایک انتظامی شکست ہے، جو اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہم اختیار، شفافیت اور خود انحصاری کو پالیسی کا مرکز نہیں بناتے ۔ سوال یہ نہیں کہ ’’ہم بجلی کہاں سے لائیں؟‘‘بل کہ یہ ہے کہ ’’ہم اپنی بجلی، اپنے اختیار سے، کیوں پیدا نہیں کر سکتے؟‘‘ اور اگر ہم سوات اور خیبر پختونخوا کی محرومی کی گہرائی میں جھانکیں، تو بات صرف بجلی کی نہیں، وفاقی مالیاتی تقسیم، ترقیاتی فنڈز اور آئینی حقوق تک جا پہنچتی ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ خیبر پختونخوا کے بجلی لوڈ شیڈنگ اور دیگر توانائی کے حقوق کے لیے آئینی و سیاسی حقائق سے مکمل ہم آہنگی لائے اور پی ایس ڈی پی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع محض قانونی راستہ نہیں، بل کہ صوبہ کے عوام کی طرف سے ایک طاقت ور سیاسی پیغام بھی ہونا چاہیے۔
اسی طرح فاٹا انضمام کے بعد این ایف سی ایوارڈ میں نظرِ ثانی کی فوری ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فاٹا اور خیبر پختونخوا دہائیوں سے دہشت گردی، بے دخلی اور پس ماندگی کا سامنا کر رہے ہیں، مگر ان کا حصہ آج بھی مساوی اور منصفانہ نہیں۔ ہر سال 100 ارب روپے دینے کا وعدہ تاحال وفا نہیں ہوا، جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔
ماضی میں ’’قاضی فارمولہ‘‘ کے تحت پس ماندگی، غربت اور تنازع کو تقسیم کا پیمانہ تسلیم کیا گیا تھا اور خیبر پختونخوا ان تمام بنیادوں پر پورا اُترتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ نہ صرف عدالت میں، بل کہ ’’کونسل آف کامن انٹرسٹ‘‘ اور دیگر وفاقی فورمز پر بھی ایک موثر اجتماعی اور آئینی آواز اُٹھائی جائے۔ اگر اس مطالبے کو حکمت و دانش کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، تو یہ نہ صرف ایک قانونی پیش رفت ہو گی، بل کہ سیاسی طور پر خیبر پختونخوا حکومت اور اس کے عوام کی کام یابی بھی بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام متعلقہ حلقے وزیرِ اعلا، ماہرینِ قانون، پارٹیوں کی قیادت اور میڈیا متحد ہوکر ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی اختیار کریں، تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور آئینی خودمختاری کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔ لہٰذا سوات کی روشنی صرف بجلی سے نہیں آئے گی، بل کہ انصاف، اختیار اور سیاسی بصیرت سے آئے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
