تبصرہ: حنظلہ خلیق
راجستھانی ادب اور تہذیب پہلی آشنائی ہی سے میرے دل کی دھڑکن میں بسے ہیں، بعض تراجم ریختہ سے مل جاتے ہیں، کچھ انگریزی میں بھی طبع ہیں۔ جدید تخلیقی ادب کی اشاعت نے راجستھان کے ادب اور ثقافت کو بھی نئی زبان بخشی ہے۔
انوکریتی اپادھیائے (Anukrti Upadhyay) کا ناول ’’بھونری‘‘ (Bhaunri)، جسے ہارپر کولنز انڈیا نے شائع کیا ہے، ایک مختصر مگر گہرا ادبی شاہکار ہے، جو قاری کو راجستھان کے صحرائی قبائل، بالخصوص خانہ بدوش لوہاروں کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ یہ محض ایک رومانی کہانی نہیں، بل کہ محبت، جنون، عورت کی خودمختاری اور دیہی زندگی کی پیچیدگیوں کا ایک طاقت ور تجزیہ ہے۔ ’’بھونری‘‘ نصف حقیقت اور نصف افسانوی انداز کا امتزاج ہے، جس میں راجستھان کے لوک گیتوں، قصوں اور اس کی پُراسرار خوب صورتی کا رنگ نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔
ناول کی کہانی بھونری نامی ایک نوجوان، باہمت اور خوب صورت لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جس کی شادی بچپن ہی میں خانہ بدوش لوہاروں کے قبیلے کے رواج کے مطابق ہوجاتی ہے۔ جب وہ جوان ہو کر اپنے شوہر بھیما کے گھر بھیجی جاتی ہے، تو وہ اس کے جاہل، کٹھور اور خوب صورت شخصیت کی طرف گہرا میلان محسوس کرتی ہے۔ تاہم، بھیما ایک مثالی شوہر نہیں؛ وہ عورتوں کا رسیا ہے اور بھونری کو یہ بات قبول نہیں ہوتی کہ وہ اپنی محبت کو کسی اور کے ساتھ بانٹے۔ بھونری کا اپنے شوہر سے والہانہ لگاو جلد ہی جنون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اور وہ اُسے اپنا وفادار بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ یہیں سے کہانی ایک تاریک اور خوف ناک موڑ لیتی ہے، جہاں محبت کی شدت ایک تباہ کن طاقت بن جاتی ہے۔
ناول کا آغاز بھونری کی والدہ کی کہانی سے ہوتا ہے، ایک ایسی خاتون جو اپنے ایک پرانے شوہر کو جنسی تسکین نہ دے پانے کی وجہ سے چھوڑ کر ایک خانہ بدوش لوہار کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ اُن کے رشتے کو مساوات پر مبنی شادی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو بھونری کی کہانی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ بھونری، جو ایک ایسے گھر میں پروان چڑھتی ہے، جہاں مساوات کا تصور موجود تھا، اُسے اپنے شوہر کے گھر بھیجا جاتا ہے، جو شروع میں اُسے محبت نہیں کرتا۔ بھیما کے دیگر عورتوں سے تعلقات اور بھونری کی اس حقیقت کو قبول نہ کر پانے کی صلاحیت، اُس کی اندرونی کش مہ کش اور بیرونی اقدامات کو جنم دیتی ہے۔ اُس کے اعمال بہ یک وقت زہریلے اور بااختیار کرنے والے لگتے ہیں، اور صحیح و غلط کے درمیان کی لکیر دھندلا جاتی ہے ۔
’’بھونری‘‘ کا مرکزی موضوع محبت اور اُس کا جنون میں تبدیل ہونا ہے۔ انوکریتی اپادھیائے محبت کے اس تاریک پہلو کو بڑی بے باکی سے پیش کرتی ہیں، جہاں چاہت کی حدیں مٹ جاتی ہیں اور یہ ایک تباہ کن قوت بن کر اُبھرتی ہے۔ بھونری کی بھیما کے لیے محبت حد سے بڑھ جاتی ہے، اور وہ اُسے قابو کرنے کے لیے غیر اخلاقی حدوں کو بھی پار کرلیتی ہے۔ یہ کہانی نفسیاتی گہرائیوں کو چھوتی ہے کہ کس طرح محبت، جب ملکیت اور ہوس میں بدل جائے، تو وہ خود کو اور دوسروں کو کیسے تباہ کرسکتی ہے۔ بھونری کا کردار راجستھان کے دیہی قبائلی معاشرے میں ایک خودمختار عورت کی نمایندگی کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی خاتون ہے، جو اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتی ہے اور اپنے شوہر کی جاہلانہ رویے اور بے وفائی کو برداشت کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اُس کی ساس کے برعکس، جو خاموشی سے اپنے شوہر کی بے وفائی کو سہتی ہے، بھونری کھل کر مقابلہ کرتی ہے۔ وہ مردوں کی جسمانی طاقت یا سماجی درجہ بندی سے نہیں ڈرتی۔ ناول دیہی خواتین کے تمام پہلوؤں کو دکھاتا ہے، جہاں کچھ اپنی تقدیر قبول کرتی ہیں، جب کہ کچھ اس کے خلاف بغاوت کرتی ہیں۔
یہ ناول راجستھان کے صحرائی قبائل، بالخصوص گادیولیا لوہاروں کی زندگی، رسم و رواج اور لوک کہانیوں کا ایک عمدہ نقشہ پیش کرتا ہے۔ صحرا کی کٹھور آب و ہوا، خانہ بدوشوں کی زندگی، اُن کے گیت اور اُن کی زبان (جس میں ہندی کے ساتھ ساتھ راجستھانی الفاظ کا استعمال بھی شامل ہے) کہانی میں ایک حقیقت پسندی اور ماحول کو زندہ کر دیتی ہے۔
انوکریتی اپادھیائے کی تحریر میں یہ خوب صورتی ہے کہ وہ صحرائی زندگی کی سختیوں اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کے اندر کی خوب صورتی اور زندگی کے لیے اُن کے شوق کو واضح کرتی ہیں۔ناول کے کردار کثیرالجہت اور پیچیدہ ہیں۔ بھونری خود ایک فیاض اور طاقت ور کردار ہے، جو قارئین کو حیران کر دیتا ہے، جب کہ بھیما کا کردار اُس کی خامیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو اُسے ایک حقیقی انسان بناتا ہے۔ ساس اور بھونری کی والدہ جیسے ثانوی کردار بھی کہانی میں گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ یہ کردار، اپنی خامیوں اور غیر متوقع رویوں کے ساتھ، کہانی کو دل چسپ بناتے ہیں۔
انوکریتی اپادھیائے کا لکھنے کا انداز خام، حقیقت پسندانہ اور شاعرانہ ہے۔ اُن کی زبان سادہ لیکن پُرزور ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے قاری کو صحرا کی تپش، رشتوں کی شدت اور کرداروں کے جذباتی اُتار چڑھاؤ کا احساس کرواتی ہیں۔ اُن کی مہارت یہ ہے کہ وہ ایک مختصر ناول میں بھی ایک مکمل اور جذباتی طور پر بھرپور کہانی پیش کرتی ہیں۔
’’بھونری‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو روایتی رشتوں، خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق میں موجود طاقت کے توازن اور اختیار کی کشمکش کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ محبت کی تاریک گہرائیوں کو کھوجتا ہے اور ایک ایسی عورت کی کہانی سناتا ہے، جو اپنی محبت اور عزت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ یہ ایک نیم حقیقت اور نیم افسانوی کہانی ہے، جو راجستھان کی لوک داستانوں، رسم و رواج اور صحرا کی پُراسرار خوب صورتی سے لب ریز ہے۔
’’بھونری‘‘ انوکریتی اپادھیائے کی ایک مضبوط ادبی آواز کی آمد کا اعلان کرتا ہے، جو قاری کو نہ صرف ایک خوب صورت کہانی میں غرق کر دیتی ہے، بل کہ انھیں گہرائی سے سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ یہ دل چسپ اساطیری کہانی میری اس سال کی سب سے عمدہ دریافت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
