کبل چوک پہنچ کر مجھے ہر دفعہ حاجی محمد اسماعیل صاحب یاد آجاتے ہیں…… میرے کولیگ اور مہربان دوست۔
حاجی محمد اسماعیل چنداخورہ کبل کے رہنے والے تھے۔ مشہور ادبی اور انتظامی شخصیت سیف الموک صدیقی صاحب کے کزن تھے۔ اُن کے والد ظریف الرحمان ایک مشہور عالم اور مذہبی شخصیت تھے۔
مَیں اور حاجی صاحب کالج میں بھی ساتھ تھے۔ ریاستی دور میں بھی ایک ہی محکمہ (تعمیرات) میں تھے۔ ایک ہی دن ایک ہی وقت ہمارے پروموشن آرڈر والیِ سوات کے دستخط سے جاری ہوئے۔
پاکستان میں ضم ہوتے ہی ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، مگر 1984ء میں پھر آن ملے۔ کچھ وقتی جدائی کے بعد پھر ساتھ رہے۔ وہ مجھ سے عمر میں سینئر تھے، تو 1998ء میں ریٹائر ہوگئے۔
موصوف بہت زندہ دل اور خوش باش تھے۔ جہاں بیٹھتے قہقہوں کی آوازیں گونجتی رہتیں۔
کبل چوک کے بارے میں حاجی صاحب نے ایک واقعہ سنایا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب یہاں ریاستِ سوات کے حاکم کی عدالت لگتی تھی۔ اس جگہ کی ساری رونق عدالتی اوقات تک رہتی۔ حاکم، عدالت برخاست کرتے، تو ارد گرد ہو کا عالم طاری ہوجاتا۔ حالاں کہ یہی چوک تھا، یہی اہم سڑکیں آکر ملتی تھیں…… مگر اکلوتا چائے خانہ بھی اوندھی چارپائیوں کا منظر پیش کرتا۔ اِکا دُکا ٹانگے میں بے زار چہرہ لیے کوچوان سواریوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا۔
حاجی صاحب بتاتے تھے کہ مینگورہ کے کسی سوڈا والے نے یہ جگہ دیکھی، تو سوچا کیوں نہ یہاں سوڈا واٹر کی دُکان کھولی جائے۔ کئی میل تک اپنی اجارہ داری ہوگی۔
قصہ مختصر، اُس نے دُکان سٹارٹ کی۔ دوپہر کو کچھ بوڑھے آگئے۔ ایک نے پوچھا، بوتل کتنے کی ہے؟ دکان دار نے کہا، ایک آنے کی۔
بوتل لے کر بوڑھے نے ایک گھونٹ بھر لیا، تو کہا: ’’واہ! کوگو، تم ایک گھونٹ پینا۔ پیٹ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘
اسی طرح باری باری ایک بوتل پورے پانچ چھے ’’کوگو‘‘ پی گئے۔
واضح رہے کہ نیکپی خیل کے لوگ احتراماً بزرگوں کو ’’کوگو‘‘ کہتے تھے۔
سوڈا واٹر والے بے چارے کا چند دن میں دِوالا نکلنے لگا۔ اُس کے سامان میں ایک جرمن لالٹین تھی، اُسے بیچ کر تانگا کرایے پر لیا اور سامانِ دُکان لاد کر سوئے مینگورہ روانہ ہوا۔ چوک میں زور سے چلا کر کہا: ’’دلہ گانو عادت بہ شئی خو مونگ بہ نہ یو۔‘‘ یعنی دلو! پیسا لگانے کی عادت ہوجائے گی، مگر ہم نہیں رہیں گے۔
آج کل کبل چوک میں ٹرن لینے کے لیے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈرنکس اور آئس کریم کے یہاں جدید ترین پارلرز قائم ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
