سکول کے زمانے میں رحمت علی ’’آصف خان‘‘ (اداکار) سے بہت متاثر تھا۔ وہ اور اُس کے کئی دوست نام کے ساتھ ’’آصف خان‘‘ کا لاحقہ لگاتے۔ ہماری روزانہ ملاقات حاجی بابا روڈ پر ہوتی۔ رفتہ رفتہ ہماری شناسائی گہری دوستی میں بدل گئی۔ ہم میں قدرِ مشترک کتابوں کا مطالعہ تھی۔ہم کو بھی پڑھنے کی دل چسپی تھی اور باقیوں کو بھی۔ وہ ناول، ڈائجسٹ اور افسانے پڑھتے تھے اور مَیں مصنفین کو۔ نتیجتاً کچھ عادات مَیں نے لیں اور کچھ اُنھوں نے چھوڑدیں۔
باراما جو اَب ایک گنجان آباد علاقہ ہے، تب وہاں چند ہی گھر تھے، اُن میں ایک گھر رحمت علی کا بھی تھا۔ باراما سے باہر ایک برساتی نالے کے آگے بخت شہزادہ مسکین (بخشو) کا گھر تھا۔ وہاں کا ماحول پُرسکون اور خاموش تھا۔ اُس کی بیٹھک میں بیٹھ کر گھنٹوں ہم اپنی اپنی کتاب پڑھتے۔ مَیں نے اُسے کرنل محمد خان، شفیق الرحمان اور مشتاق احمد یوسفی سے متعارف کروایا اور سفرنامے پڑھنے کی لت لگائی۔ یوں باراما کی خاموشی میں ہمارے قہقہے بس ہم ہی سنتے۔ اُس وقت باراما میں بخشو کے گھر کا کوئی پڑوسی کیا، دور دور تک کبھی کبھی کوئی انسان دِکھائی دیتا تھا، وہ بھی شکاری یا پھر کوئی بھٹکا ہوا راہی۔
1990ء کے آغاز میں کراچی خوابوں کا شہر اتھا۔کتابوں میں اس کے حوالے سے اتنا کچھ پڑھا تھا کہ اس شہر کا تخیل کسی الگ دنیا کا روپ دھار چکا تھا۔ ہمارا پورا گروپ ’’بہادرے‘‘، ’’متے‘‘، ’’بخشو‘‘، ’’فرمانے‘‘، ’’وکیل‘‘ اور ’’فرمانے‘‘ کے دو بھائی کراچی اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے چلے گئے۔
میرے ذہن پر بھی رئیس امروہیؔ ، جونؔ ایلیا، بشریٰ انصاری، معین اختر، فاطمہ سریا بجیا، انور مقصود کی کتابیں اور پی ٹی وی سے ماخوذ ’’کراچی‘‘ کا تصور نقش تھا۔ کالج کے ٹور میں، مَیں کراچی گیا اور جامعۂ کراچی میں قیام کیا۔ پہلی مایوسی وہاں مین گیٹ پر رینجرز کی جامہ تلاشی کا مستقل اہتمام بنی، جس کی اُمید کم از کم مجھے کراچی جیسے پڑھے لکھے شہر سے نہیں تھی۔ اُن دنوں کراچی میں جتنا گھومتا اس کا سحر گھیرے میں لیتا۔
ایک دن اپنا سامان لے کر لفافے کی پشت پر بچھڑے دوستوں کا ایڈریس لیے ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ ٹیکسی والے نے پہلے ایڈریس کو اور پھر مجھ کو غور سے دیکھا۔ پوچھا، ’’بنارس جانا ہے؟‘‘
مَیں نے کہا: ’’نہیں نہیں، یہی کراچی میں ملنگ ہوٹل کے پاس علی اصغر دودھ فروش، پٹھان کالونی جانا ہے!‘‘
وہ کہنے لگا کہ ’’بنارس ہی ہواناں……! وہ ایک ہی طرح کے لوگوں کا ایک جیسا علاقہ ہے۔‘‘
اُس کی بات میرے لیے سمجھنا مشکل تھی۔ بس مَیں تخیل اور حقیقت کے بیچ نظرانداز کرگیا۔ خوب صورت راہوں سے گزرتے ہوئے ریشمی ساڑھیوں کی مہک محسوس ہو رہی تھی۔ بنارس تو رنگینیوں کا نام ہے، دل مچل رہا تھا، اوسان خطا ہو رہے تھے، دوستوں پر رشک آ رہا تھا اور دل میں بہت پہلے نہ آنے کی کسک پیدا ہو رہی تھی۔ ایک ٹوٹے پُل کے پاس ایک گندے سے سٹاپ پر ٹیکسی والے نے روک کر کہا، ’’لو بابو! منزل آن پہنچی!‘‘
مجھ کو پورے راستے بنارس کی رنگینیوں نے آغوش میں لے رکھا تھا۔ بنارسی ٹھگوں کا خیال ہی نہیں آیا۔ مجھے لگا کہ اگر امانکوٹ سخا چینہ علاقہ کو دس گنا مزید بد صورت کیا جائے، تو یہ بنارس بن جائے۔ ٹیکسی والا طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ میرا جائزہ لے کر چلتا بنا اور میں حیرت کی وجہ سے وہاں بت بنا کھڑا رہا۔ پل سے نیچے گزرنے والے غلیظ اور بدبو دار پانی اور اس میں موجود درجنوں سرخ اور رنگین کپڑے پہنے لوگوں کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں کچھ شناسا سے چہرے نظر آئے۔ وہ قہقہے مارتے ’’متے‘‘ (رحمت علی) اور وکیل تھے۔ سوچا، اتنی گندی جگہ میں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ اُنھیں آوازیں دیں۔ مگر کسی نے نہیں سنیں۔ اس بڑے بے حس شہر میں صرف یہی دو ہنس رہے تھے۔ وجہ مجھے معلوم تھی۔ دراصل اُن کو ہنسنے کی بیماری تھی۔ کافی دیر بعد جب اُن کی نظر مجھ پر پڑی، تو نیچے سے دوڑتے اوپر آئے اور مجھے گلے لگایا۔ میرا اُن سے پہلا سوال تھا، یہاں اس گند میں کیا کر رہے ہو اور کراچی کدھر ہے؟
کہنے لگے، اس گندے نالے میں صاف پانی سپلائی کی ایک لائن گزر رہی ہے، جو ایک جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے،اُس سے پانی نکلتا ہے۔ اس جگہ کو ہم پھٹانے باراما کا چشمہ سمجھ کر کپڑے دھونے آتے ہیں۔
دراصل اُس زمانے میں باراما اور پٹھانے کے درمیان سنسان جگہ پر صاف شفاف چشمے ہوا کرتے تھے اور ہماری پسندیدہ جگہ بھی، وہی تھی۔ جہاں قدرت کی فیاضی ہر وقت بانہیں کھولے ملتی۔ درخت، سبزہ، پانی، پرندے اور مکمل سکوت۔
’’چلو ڈھیرے پر چلتے ہیں۔‘‘ دونوں ایک ساتھ بولے۔ ڈھیرے کا نام سن کر پہلی دفعہ اتنی دیر میں اُن کی عزت کرنے کو دل چاہا۔ دونوں مجھے کچی، گھومتی اور گندی گلیوں سے گزار کر ایک چوکور بیٹھک میں لے گئے، جہاں کوئی الماری تھی، نہ میز نہ کرسی وغیرہ۔ ایک مٹکا، ایک پیالہ اور فرش ہی اس بیٹھک کی کل کائنات تھے۔ یہاں 7لوگ رہتے آ رہے تھے۔ سوال یہ تھا کہ رہتے کیسے تھے؟ دیواروں پر کیل ہی کیل تھے، جس سے ہر وہ چیز لٹک رہی تھی، جو لٹکائی جا سکتی تھی۔ میرے اردگرد 7 مطمئن بے وقوفوں نے گھیرا ڈالا اور کہا۔ ’’یہاں گارڈن ہے!‘‘
مجھے خود سمیت ہر چیز پر شک تھا۔ پوچھا، ’’گارڈن مطلب……؟‘‘
’’چڑیا گھر……!‘‘ کسی نے سلیس اُردو میں جواب دیا۔ مَیں نے پوچھا: ’’اس (بیٹھک) کے علاوہ ایک اور چڑیا گھر بھی ہے؟‘‘
اولاً وہ سب برا مان گئے، ثانیاً قہقہے لگانے لگے۔
دراصل رحمت علی اور وکیل وہاں ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ رحمت علی وہاں کام کے ساتھ ایک ’’حقیقی عشق‘‘ میں بھی مبتلا تھا۔ اُس کی معشوقہ کا نام ترانہ تھا ۔ ’’ترانہ‘‘ کو چھوڑ کر باقی پوری دنیا کو پتا تھا کہ رحمت علی اور وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
جس ترانے، غزل یا گیت میں لفظ ’’ترانہ‘‘مستعمل ہوتا، وہ ہمیں جبراً رحمت علی کی آواز میں سننا پڑتا۔ کئی مہینے چلنی والی محبت ایک دن ترانہ نے رحمت علی کو ’’بھائی‘‘ کَہ کر زندہ درگور کردی۔ اُس دن گول مٹول رحمت علی غصے سے ہنس رہا تھا، گالیاں دے رہا تھا کہ محبوبہ کی جگہ اُس کو ’’بہن‘‘ جو مل گئی تھی۔ وہ قدرت سے گلے الگ کر رہا تھا۔
مَیں اُن کے ساتھ تین مہینے اُس اذیت خانے (بیٹھک) میں رہا۔ وہ ایک زیرِ زمین واٹر ٹینک کے اوپر بنی تھی، جس میں جب کُل 8 لوگ ایک وقت لیٹتے، تو پہلو بدلنے کی جگہ نہ ملتی اور غلطی سے اگر کوئی پہلو بدل بھی لیتا، تو پھر صبح تک سیدھے سونا، بہ الفاظِ دیگر چھت کی زیارت کرنا نصیب نہ ہوتا۔ اللہ……! غربت، تنگی، کس مہ پر سی کے وہ سخت دن اور کچھ نہیں، بس آپس میں بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرنے کی عیاشی کے علاوہ عذاب ہی تھے……!
سب کام کرتے تھے، بس مَیں اور ’’بخشو‘‘ وقت ضائع کرتے تھے۔ بلامقصد جَلا وطنی میں تھے۔ جب ’’بخشو‘‘ کے پاس 320 روپے تھے، مَیں نے اُسے کہا کہ ان پیسوں سے گھر کی راہ لو۔ ورنہ ہمیشہ کراچی کے رہ جاؤگے۔
اسی دوران میں ایک صبح ہمارا نواں دوست کراچی آن ٹپکا۔ اُسے بھی کراچی کے خواب اور ہمارے مکر کے خط دھوکا دے گئے تھے۔ وہ آیا اور مَیں نے اپنی جگہ پر اُسے سلا دیا۔ مَیں وکیل کے ساتھ اُردو آرٹس کالج (اَب یونیورسٹی ) اُسے سیکنڈ شفٹ میں داخلے کے لیے گیا تھا۔ دوپہر کا ٹائم تھا۔ مَیں فرسٹ فلور سے گزر رہا تھا کہ نیچے سے کوئی ہمارا (میرا اور وکیل کا) نام پکار رہا تھا۔ دیکھا تو پورا گروہ نیچے کھڑا تھا۔ نیچے گئے، تو بخشو نے کہا کہ صبح آیا ہوا دوست واپس جا رہا ہے سوات……!
مَیں نے پوچھا کیوں؟
تو بخشو جواباً کہنے لگا کہ اُسے سوات یاد آ رہا ہے، گھر کی یاد آ رہی ہے۔ سمجھایا کچھ دن ٹھہر کر جاؤ، تو پتا چلا کہ ٹکٹ کٹوا کر کالج آیا ہے۔ واپسی میں بخشو کا ٹکٹ بھی کٹوا کر رات کو اس کے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور مَیں اَنا کا مارا وہیں رہ گیا۔
تیسرا مہینا رمضان کا تھا۔ پانی اور دہی کے ساتھ افطار و سحر کا مزا تھا یا نہیں، مگر عذاب ضرور تھا۔
کراچی کے مصائب سے نکل کر سب نے زندگی میں نئی راہیں پکڑلیں۔ وکیل ’’جیولر‘‘ بن گیا۔ بخشو سعودی عرب چلا گیا۔ ’’بہادرے‘‘ بھی کام پر لگ گیا۔ ’’فرمانے‘‘ مزید پڑھ کر وکیل بن گیا،مگر رحمت علی نے آرام کرنے کی عادت نہیں چھوڑی اور زندگی میں گویا ڈنڈا ہاتھ میں لے کر سنجیدگی کو آنے نہیں دیا۔ وہ سنجیدگی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ کتابوں کی دنیا سے باہر جھانکنے پر راضی نہیں تھا۔
رحمت علی کی شادی ہوئی، تو ایک معذور بچی پیدا ہوئی، جو بعد میں فوت ہوئی۔ اُس کا بھی کوئی باقاعدہ علاج نہیں ہوا۔ بعد میں اور بچے پیدا ہوئے۔ اُسے غیر ضروری گولیاں (درد اور طاقت کی ادویہ) استعمال کرتے کرتے جگر کا عارضہ لاحق ہوا۔ کئی سال غیر سنجیدگی سے مرض کا مقابلہ کیا۔ ہسپتال میں خون کی اُلٹی کے بعد ایک قہقہہ لگاتا اور کہتا: ’’چیک کرو خون کا رنگ!‘‘
شوگر کی بیماری نے تنومند رحمت علی کو ہڈیوں کا ڈھانچا بنا دیا۔ کہتا، تم سب بوڑھے نظر آتے ہو، مَیں دھان پان تم میں سب سے کم سن لگتا ہوں۔
مفلسی، بے چارگی، تنگی مگر خوش دلی میں زندگی گزارتے ہوئے ایک دن وہ چلا گیا ہمیشہ کے لیے۔ اُس کی زندگی کا یہ واحد واقعہ ہے جو اُس نے سنجیدگی سے لیا۔ اس کی نمازِ جنازہ 24 اگست 2024ء کو دوپہر 2 بجے حاجی بابا (مینگورہ) جنازگاہ میں ادا کی گئی۔
جنازے میں شرکت کے وقت مجھے لگ رہا تھا کہ رحمت علی اَب مسکراتا ہوا کھڑا ہوجائے گا۔ اُس کے گھر فاتحے پر گیا۔ اب کے بہتے آنسو اور بوجھل دل سے راستہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ پہاڑی تھی کہ سر ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اُس کے کچے مکان کے ساتھ ایک کچی مسجد ہوا کرتی تھی، اب ایک جامع مسجد کے اردگرد پورا شہر آباد ہے۔ اُس کے بیٹے جوان ہوگئے ہیں (ماشاء اللہ!)
رحمت علی کا ایک بیٹا سعودی عرب میں ہے۔ ایک رحمت علی ہی کی دکان سنبھال چکا ہے۔
اب جب بھی انوپم کھیر پردے پر نظر آتا ہے، مجھے رحمت علی کی ہنسی کی آواز آتی ہے۔ وہ کہتا تھا کہ انوپم کھیر میری طرح ہے اور مَیں اُسے کہتا تھا، ’’نہیں تم انوپم کھیر کی طرح ہو!‘‘
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
