سوات، مقامی و غیر مقامی گداگروں کے نرغے میں

Blogger Engineer Miraj Ahmad

سوات، جو کہ خیبر پختونخوا کا ایک خوب صورت اور تاریخی خطہ ہے، اپنی قدرتی دل کشی، پُرسکون فضا اور دل موہ لینے والے مناظر کی بہ دولت ’’مشرق کا سویٹزرلینڈ‘‘ کہلاتا ہے۔
یہاں کے سرسبز پہاڑ، میٹھے جھرنے، جھیلیں اور آثارِ قدیمہ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں…… لیکن بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں اس علاقے کو ایک سماجی ناسور نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور وہ ہے ’’گداگری کا روز افزوں رجحان‘‘، جس نے نہ صرف معاشرتی نظم و نسق کو متاثر کیا ہے، بل کہ سوات کی خوب صورتی اور سیاحتی قدر کو بھی داغ دار کر دیا ہے۔
سوات کے بازاروں، بس اڈوں، مساجد، گلی کوچوں اور حتیٰ کہ بلند و بالا ہوٹلوں کے دروازوں پر بھی گداگر نظر آتے ہیں۔ اُن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ سب شامل ہیں۔ بعض اوقات تو گداگر اس حد تک بہ ضد ہوجاتے ہیں کہ لوگوں کو زبردستی خیرات دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ سیاح، جو یہاں کی ثقافت اور حسن سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں، اُن گداگروں کے ہاتھوں تنگ آکر یا تو جلدی واپس چلے جاتے ہیں، یا دوبارہ سوات آنے سے گریز کرتے ہیں۔
یہ صورتِ حال نہ صرف سماجی بے چینی کو جنم دے رہی ہے، بل کہ سوات کی معیشت، جو بڑی حد تک سیاحت پر انحصار کرتی ہے، بھی اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔ گداگری کے بڑھتے ہوئے رجحان سے سوات کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے، تو مستقبلِ قریب میں یہ مسئلہ ناقابلِ قابو ہوسکتا ہے۔
گداگری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ غربت، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، معذوری، قدرتی آفات یا گھر کے کفیل کی موت جیسے اسباب واقعی کچھ افراد کو مجبوری کی حالت میں بھیک مانگنے پر مجبور کرسکتے ہیں، لیکن سوات میں گداگری کا جو حالیہ رجحان سامنے آ رہا ہے، اُس کا تعلق زیادہ تر منظم اور پیشہ ور گداگری سے ہے۔ کئی افراد اور گروہ دوسرے اضلاع اور بعض اوقات دوسرے صوبوں سے آکر یہاں گداگری کو ذریعۂ معاش بنائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کی ہم دردیاں حاصل کر کے پیسا بٹورتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بعض گداگر، بچوں، خواتین اور معذور افراد کو استعمال کرکے منظم بھیک مانگنے کے نیٹ ورک کا حصہ بن چکے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق یہ گروہ بچوں کو اِغوا کر کے یا لالچ دے کر سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے واقعات نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں، بل کہ معاشرے کے لیے ایک بدترین مثال بھی قائم کرتے ہیں۔
انتظامیہ کی کارکردگی اگر دیکھی جائے، تو وہ اس سلسلے میں خاطر خواہ اقدام کرتی نظر نہیں آتی۔ وقتی طور پر گداگروں کے خلاف چھاپے مارے جاتے ہیں، اُنھیں گرفتار کیا جاتا ہے، مگر چند گھنٹوں بعد ہی دوبارہ اُنھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یا تو سیاسی دباو ہوتا ہے، یا پھر قانون کی کم زوری۔ مستقل بنیادوں پر کوئی جامع پالیسی یا پروگرام نظر نہیں آتا، جس سے اس سنگین مسئلے کا سدباب کیا جاسکے۔
مزید برآں، انتظامیہ کی جانب سے کوئی باقاعدہ سروے یا تحقیق نہیں کی گئی جس سے معلوم ہوسکے کہ سوات میں کتنے گداگر مقامی ہیں، کتنے بیرونی اور کتنے حقیقی مستحق ہیں؟
گداگری کو ختم کرنے کے لیے محض وقتی کارروائیاں یا عوامی بیانات کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک موثر اور جامع حکمتِ عملی ترتیب دینا ناگزیر ہے۔ سب سے پہلے تو مقامی حکومت کو گداگروں کی رجسٹریشن کرنی چاہیے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون واقعی ضرورت مند ہے اور کون پیشہ ور……! اس کے بعد ان افراد کو سرکاری یا غیر سرکاری فلاحی اداروں کے ذریعے تربیت فراہم کی جائے، تاکہ وہ کوئی ہنر سیکھ کر روزگار کما سکیں۔
دوسری طرف، عوام کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ اُنھیں اندھی خیرات دینے کے بہ جائے مستحقین کی شناخت کر کے اُن کی مدد کرنی چاہیے، یا ایسے فلاحی اداروں کے ذریعے عطیات دینے چاہییں جو حقیقی طور پر ضرورت مندوں تک امداد پہنچاتے ہیں۔
میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ گداگری کے مسئلے پر رپورٹنگ کے ذریعے عوام اور انتظامیہ دونوں کو جھنجھوڑے، تاکہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
اگر سوات کو واقعی ایک ماڈل ضلع بنانا ہے، تو سب سے پہلے اس کے معاشرتی ڈھانچے کو صاف کرنا ہوگا۔ گداگری جیسے مسائل پر قابو پاکر ہی ہم سوات کی اصل خوب صورتی، یعنی اس کے پُرامن، صاف ستھرے اور خوددار معاشرے کو بہ حال کرسکتے ہیں۔
سوات کے باسی، انتظامیہ، فلاحی ادارے اور پوری قوم کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تاکہ یہ خطہ دوبارہ امن، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے