جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل سپریم کورٹ کے ہفت رکنی آئینی بینچ نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سویلین کے فوجی ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرلیں اور فوجی عدالتوں کو عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دے دی۔ انٹرا کورٹ اپیلیں 5/2 کی اکثریت سے منظور کی گئی ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ اُن ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں آئینی و قانونی حوالہ جات دے کر انٹراکورٹ کو مسترد کیا۔
آج کی تحریر میں ججوں کے اختلافی نوٹ کا جائزہ لیا جائے گا کہ کن آئینی و قانونی نِکات کی بنا پر سویلین کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔
اختلافی فیصلے کے مطابق ’’پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء‘‘ ایک تادیبی قانون ہے، جس کا تعلق صرف مسلح افواج کے ممبران سے ہے، جس کا مقصد ممبران کے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنانا ہے یا محکمے میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔
اسی طرح آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 8(3)(a) کے تحت فوجی نظم و ضبط کے تحت افراد کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے اور اگر آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1(d) کے مطابق عام شہریوں کو آرمی ایکٹ کے تابع قرار دے دیا جائے، تو پھر عام شہری آئین میں درج بنیادی حقوق سے محروم قرار پائیں گے۔ چوں کہ یہ سیکشن آئین سے متصادم ہے، لہٰذا سیکشن 2(1(d) کو آرمی ایکٹ کے حصے کے طور پر برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ اور یہ کہ آئین کا آرٹیکل 175 جو سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور قوانین کے تابع ماتحت و دیگر عدالتوں کے قیام و دائرۂ اختیار کوواضح کرتا ہے، جب کہ آرٹیکل 175(3) میں واضح طور پر درج ہے کہ عدلیہ کو بہ تدریج ایگزیکٹو سے الگ کیا جائے گا اور چوں کہ فوجی عدالتوں کو فوجی افسران یعنی ایگزیکٹوز ہی چلاتے ہیں۔ اس لیے آئین کے آرٹیکل 175(3) کے دائرۂ کار سے باہر ہونے کی وجہ سے ایگزیکٹو (فوجی افسران) پر مشتمل فوجی عدالتیں عام شہریوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلا سکتے۔ لہٰذا فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل آئین کے آرٹیکلز 2A ،9 ،10 ،10A ،19A ،25 اور 227(1) کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔
قارئین! معزز ججوں نے اختلافی فیصلے میں آئین کے جن آرٹیکلز کا تذکرہ کیا ہے، آئیے ان کا سرسری جائزہ لیتے ہیں:
٭ آرٹیکل 2A:۔ یہ کہ ریاست پاکستان میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام لازمی ہوگا۔
٭ آرٹیکل 9:۔ یہ کہ کسی شخص کو قانون میں درج طریقۂ کار کے بغیر زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
٭ آرٹیکل 10:۔ یہ کہ زیرِ حراست شخص کے لیے وکیل تک رسائی، شفاف عدالتی کارروائی اور عدالتی نگرانی کی ضمانت دی گئی ہے۔
٭ آرٹیکل 10A:۔ یہ کہ ہر شخص کو منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہے، جو ایک آزاد و غیرجانب دار عدالت میں ہونا چاہیے۔
٭ آرٹیکل 19A:۔ یہ کہ عوام کو ہر معاملے میں معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، یعنی کوئی معاملہ مخفی نہیں ہونا چاہیے۔ عموماً فوجی عدالتی کارروائی میڈیا یا کھلی عدالتی سماعت کے طور پر نہیں کی جاتی۔
٭ آرٹیکل 25:۔ یہ کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں، یعنی کسی شہری کا عام عدالتوں میں اور کسی شہری کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جانا چاہیے۔
٭ آرٹیکل 227(1):۔ تمام قوانین اسلامی اُصولوں سے ہم آہنگ ہوں گے۔
ججوں کے مطابق چوں کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کے مقدمے کی شنوائی حاضرِ سروس فوجی افسران کرتے ہیں، لہٰذا فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل آئین کے آرٹیکل 245 کے ذریعے مسلح افواج کو تفویض کردہ فرائض سے تجاوز کرنا ہے۔ ایک آزاد اور غیر جانب دار فورم کے سامنے فوجی عدالتوں کی طرف سے جاری کردہ سزاکے خلاف شہریوں کو اپیل کے حق سے انکار بھی منصفانہ عدالتی کارروائی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اسی طرح فوجی افسران کی زیرِ صدارت فوجی عدالت کے ذریعے عام شہریوں کا مقدمہ چلنا اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے تسلیم شدہ معاہدوں کے ساتھ ساتھ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق 1966ء اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، جن پر پاکستان دستخط کنندہ ہے۔
اور یہ کہ سانحہ 9 مئی 2023ء پر فوجی عدالتوں کی طرف سے عام شہریوں کو سنائی گئی سزائیں دائرۂ اختیار سے تجاوز ہیں۔ زیرِ حراست ملزمان کے ساتھ زیرِ سماعت قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ان قیدیوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کی بہ جائے متعلقہ اور دائرۂ اختیار کی مجاز عدالتوں میں منتقل کیے جائیں اور مجاز عدالتیں سماعت تیزی سے کرتے ہوئے قانون کے مطابق جلد از جلد فیصلے جاری کریں۔ ایسے افراد جو فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کو پورا کرچکے ہوں یا فوجی عدالتوں میں الزامات سے بری ہوچکے ہوں، وہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 169 کے تابع ’’شواہد کی کمی کی بنا پر رہا قرار پائیں گے!‘‘یعنی ایسے افراد سزا یافتہ نہیں، بل کہ باعزت بری قرار پائیں گے۔
سپریم کورٹ آئینی بینچ کے اختلافی فیصلہ کی رُو سے عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانا آئین و قانون، اسلامی تعلیمات اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے برخلاف ہے۔
قارئین! آیندہ تحریر میں جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے اکثریتی ججوں نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانے کو آئین و قانون کے کن نِکات کی بنا پر جائز قرار دیا ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
