حیدر علی جان کی گرفتاری، آزادیٔ صحافت پر سوالیہ نشان

Blogger Hilal Danish

حیدر علی جان کی گرفتاری محض ایک فرد کی حراست نہیں، یہ صحافت کے تاب ناک اُفق پر چھا جانے والی تاریکی کی گواہی ہے۔ یہ اُس سچائی کا گلا گھونٹنے کی جسارت ہے جو آج بھی کاغذ پر لرزتے حرفوں میں زندہ ہے۔ اُس جرم کی سزا دی گئی ہے، جس کی بنیاد فرض شناسی، جرأتِ اظہار اور صحافتی دیانت ہے۔
وہ صحافی جس کی آواز ہمیشہ مظلوم کی صدا بنی، جس کی تحریر نے باطل کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کیا اور جس کی تصویر کشی نے پردوں کے پیچھے چھپے سچ کو آشکار کیا، آج وہی مردِ حُر سلاخوں کے پیچھے ہے۔
اور جرم صرف یہ کہ اُس نے لکھا وہ جو تھا، دِکھایا وہ جو چھپایا گیا تھا، اور بولا وہ جو کہا جانا لازم تھا۔
آزادیٔ صحافت پر یہ حملہ کسی ایک ادارے یا فرد کا مسئلہ نہیں، یہ اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔ جب قلم کو زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے، جب سچائی کی صدا پر تالے لگا دیے جاتے ہیں، تو در اصل پورے معاشرے کو فکری یرغمال بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے اور کُھری ہوئی زبانیں ہی مزاحمت کا واحد سہارا بنتی ہیں۔
ہم اس ظلم کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم اس جبری خاموشی کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حیدر علی جان کو فی الفور رہا کیا جائے اور اُن کے خلاف ہونے والی ہر کارروائی کو منسوخ کیا جائے ۔
قلم کے خلاف اٹھنے والا ہر وار نامنظور!
حق گوئی کے راستے میں کھڑی کی جانے والی ہر دیوار نامنظور!
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی ایک آمریت کے سائے تلے، سیاست دانوں کی زبان بندی، وفاداریاں خریدنے اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے نیب جیسے کالے ادارے کو جنم دیا گیا۔ آج اُسی تسلسل میں، صحافیوں کو خوف زدہ کرنے، اُن کی پیشہ ورانہ آزادی کو محدود کرنے اور اختلاف کو جرم بنانے کے لیے پیکا جیسے کالے اور پھیکے قانون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پیکا کا اطلاق آزادیٔ اظہار کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ قانون اختلاف کو دبانے اور سچ کو مجرم بنانے کی ایک ریاستی چال ہے۔ اس کا ہر پہلو آزادیٔ صحافت کے بنیادی ستونوں پر ضرب لگاتا ہے۔
ہم اُن تمام بے باک آوازوں کے ساتھ ہیں جو ظلم کے اندھیروں میں بھی چراغ جلانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ہم اُن صحافیوں کے قافلے کے ساتھ ہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ بولنے کا عہد نبھا رہے ہیں۔
اور ہم ہمیشہ حیدر علی جان کے ساتھ رہیں گے۔
کیوں کہ اگر ہم نے آج آواز نہ اٹھائی، تو کل ہمارے لفظ بھی مقید ہوں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے