ریاستی پی ڈبلیو ڈی کی تنظیم اور طریقۂ کار

Blogger Riaz Masood


(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
مَیں نے پہلے بھی اس انتہائی اہم ریاستی ادارے کی ارتقا کی وضاحت کی ہے۔ جب مَیں نے 1961ء میں اس میں شمولیت اختیار کی، تو یہاں کوئی بھی اہل تکنیکی تعلیم یافتہ اہل کار نہیں تھا۔ سڑک کے انجینئر چیف سیکرٹری کے بھائی تھے، جن کا دعوا تھا کہ اُن کے پاس سول انجینئرنگ میں ڈپلوما ہے۔
تعمیرات کے شعبے میں ہم چھے افراد تھے، لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس کام کے لیے اہل نہیں تھا، بہ شمول ہمارے باس کے۔ اس کے باوجود ریاستی پی ڈبلیو ڈی کی کارکردگی پاکستانی پی ڈبلیو ڈی سے بہتر تھی۔ والی صاحب نے اس محکمے کو زیادہ وقت اور توجہ دی اور اسے اپنا ذاتی محکمہ قرار دیا۔ جب کسی نے تجویز دی کہ سینئر عملے کے رُکن کو ریاستی چیف انجینئر کے طور پر نام زد کیا جائے، تو اُنھوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ وہ خود ریاستی پی ڈبلیو ڈی کے چیف ہیں۔
جہاں تک طریقۂ کار کی بات ہے، ہمارے پاس اپنی اختیار شدہ تفصیلات و تصریحات (Specification) تھیں، جو پچھلے کئی سالوں کے تجربے کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں۔ سکولوں، ہسپتالوں، مختلف اقسام کی ڈسپنسریوں، رہایشی مکانات، بنگلوں، تحصیل عدالتوں اور ہر تحصیل میں مساجد کے منصوبے معیاری بنائے جاتے اور اُنھیں خود حکم ران منظور کرتے۔
رہایشی سہولیات کی درجہ بندی کلاس اے، کلاس بی، کلاس سی اور کلاس ڈی کے طور پر کی گئی تھی۔
ریاستی پی ڈبلیو ڈی کے ہر رُکن کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ ہر کام کے نرخ اور مخصوصات کیا ہیں؟ نرخوں کا حساب مارکیٹ میں مواد، مزدوری اور ٹھیکے دار کے منافع کی موجودہ قیمتوں پر لگایا جاتا۔ ضروری لاگت کا حساب ’’نرخ نامہ‘‘ ریاستی پی ڈبلیو ڈی سوات پر مبنی تھا۔ یہ نرخ نامہ ایک بڑی شیٹ پر لکھا گیا تھا، جسے لکڑی اور شیشے کے فریم میں بند کیا گیا تھا اور ریاستی پی ڈبلیو ڈی کے مرکزی دفتر کی دیوار پر آویزاں تھا۔
تجزیے حقیقت پسندانہ ہوتے تھے، جو ہر کام میں استعمال ہونے والے مواد کی مقدار کو ظاہر کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، 100 مکعب فٹ (CFT) اینٹوں کی چنائی کی شرح کو اینٹوں کی تعداد، سیمنٹ اور ریت کی مقدار، مستری اور مزدوروں کے کام کے گھنٹے اور اجرت، مچان بندی، پانی دینے (کیورنگ) وغیرہ کی بنیاد پر درست طور پر حساب کیا گیا اور اسے ’’شیڈول آف ریٹس‘‘ یا ’’نرخ نامہ‘‘میں درج کیا گیا تھا۔
والی صاحب ہر آئٹم کے بارے میں اتنے حساس تھے کہ ہم نے سوات کے تمام اینٹوں کے بھٹوں سے نمونے جمع کیے اور حساب لگایا کہ "10 0CFT” کے لیے ہر بھٹے سے کتنی اینٹیں درکار ہیں؟ اس کے بعد، اُنھوں نے اینٹوں کے معیار اور سائز کو برقرار رکھنے کے لیے بھٹوں کی منظوری دی۔
یہی وجہ تھی کہ تصریحات کے لیے، ہمیں سی بی آر (کیلیفورنیا بیئرنگ ریشو) کو بنیاد بنانے کی ضرورت نہیں تھی، جو سڑکوں اور فرشوں کی پختگی کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہونے والا ایک ٹیسٹ ہے۔ ہم علاقے کے عملی مطالعے کی بنیاد پر تعمیرات کی بنیادوں کی گہرائی کا تعین کرتے۔ ہم بنیاد میں چونا ڈالتے تھے اور ایک فٹ سے دو فٹ تک موٹا کرتے تھے اور پھر پتھر کی چنائی یا اینٹوں کا کام کرتے تھے۔’’پلنتھ‘‘ (Plinth) کی اونچائی جگہ کے مطابق طے کی جاتی۔ ’’ڈی پی سی‘‘ (DPC) پلنتھ کی سطح پر رکھی جاتی، جس میں دو متوازی اسٹیل بار اور سیمنٹ کنکریٹ 1:1: 3کے تناسب میں ہوتے۔ اینٹوں کا کام 1:6 کے تناسب سے کیا جاتا۔ چھت کی سلیں دو طرفہ آر بی سی کی ہوتیں اور ان پر ٹائل لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لکڑی کا کام فسٹ کلاس دیودار کا ہوتا تھا۔ اگر دیودار دست یاب نہ ہوتا، تو پھر ’’فر‘‘ اور ’’کائل‘‘ (پیوچ) کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا۔
سی جی آئی چھتوں کے لیے ٹرسس ’’پیوچ‘‘ کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے اور چھت میں 24 گیج کی شیٹس استعمال کی جاتی تھیں۔ ہمیں زیادہ پائیدار کارکردگی حاصل ہوئی اور ہماری عمارتیں اس کا ثبوت ہیں۔
1967ء میں، والی صاحب نے اسٹیٹ پی ڈبلیو ڈی میں دو مستند انجینئرز کی تقرری کی۔ ایک جناب شیر علی خان جامبیل سے سڑکوں کے شعبے میں اور دوسرے جناب خورشید علی خان غالیگے سے عمارات کے شعبے میں، جنھیں اسسٹنٹ انجینئرز کے طور پر تعینات کیا گیا۔ دونوں بعد میں صوبائی سروس سے ڈائریکٹرز کے طور پر بی پی ایس 19 میں ریٹائر ہوئے ۔
نوٹ از مترجم:۔ "Plinth Level” ایک تعمیراتی اصطلاح ہے، جو عمارت کے اُس حصے کو ظاہر کرتی ہے، جو زمین کی سطح سے کچھ اوپر ہوتا ہے اور بنیاد (Foundation) کے اوپر بنایا جاتا ہے۔ یہ عمارت کا وہ حصہ ہے، جو زمین کی سطح سے اوپر نظر آتا ہے اور باقی ڈھانچے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے ۔
"Trusses” چھتوں کو سہارا دینے کے لیے استعمال ہونے والے ساختی فریم کو کہتے ہیں۔

……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے