ہمارا نظام تعلیم اور ضائع ہوتی ہوئی صلاحیتیں

Blogger Shafiq ul Islam

پاکستان میں تعلیم کا مطلب آج بھی صرف ایک ہی چیز سمجھی جاتی ہے: ’’کتابیں، امتحان اور نمبر۔‘‘
ہمارے نظامِ تعلیم نے بچوں کی صلاحیتوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، جیسے ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر ہی بننے کے لیے پیدا ہوا ہو…… لیکن دنیا بھر میں ترقی یافتہ اقوام نے تعلیم کو صرف ایک رٹے بازی کی مشق نہیں، بل کہ ہمہ جہت تربیت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ کیا ہمیں نہیں سیکھنا چاہیے کہ فن لینڈ، جرمنی، جاپان یا کینیڈا جیسے ممالک کس طرح اپنے بچوں کی دل چسپی، ذہنی سطح، جسمانی صحت اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کی کئی اقسام فراہم کرتے ہیں؟
فزیکل ایجوکیشن وہاں صرف ایک مضمون نہیں، بل کہ بچوں کی روزانہ کی روٹین کا حصہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک صحت مند جسم ہی ایک صحت مند دماغ کا ضامن ہوتا ہے۔
اسی طرح پریکٹیکل اور پروفیشنل ایجوکیشن بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتی ہے۔ وہ نہ صرف میڈیکل یا انجینئرنگ، بل کہ آرٹ، ڈیزائن، کوڈنگ، باغ بانی، کھانا پکانے، کار مکینک اور درزی جیسے شعبوں میں بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور معاشرے میں کام یاب اور باعزت زندگی گزارتے ہیں۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری درسی کتب میں پڑھائے جانے والے مضامین اور موضوعات بچوں کی مستقبل کی زندگی میں کس حد تک مفید ثابت ہوں گے؟ کیا وہ مضامین جنھیں ہم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، پریکٹیکل زندگی میں اُن کے کام آئیں گے؟ کیا یہ وہ ہنر ہیں، جو بچوں کو نوکری یا روزمرہ کی زندگی میں درکار ہوں گے؟ کیا جو کچھ بھی ہم اُن بچوں کو پڑھا رہے ہیں، اُس کا عملی زندگی میں کوئی عمل دخل ہے؟ تعلیم کا مقصد صرف نظریات کو سمجھانا نہیں ہونا چاہیے، بل کہ بچوں کو زندگی کے حقیقی چیلنجز سے بھی نمٹنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی بچہ ریاضی یا سائنس میں کم زور ہے، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ناکام انسان ہے۔ شاید وہ ایک زبردست فوٹوگرافر ہو، باصلاحیت گرافکس ڈیزائنر، بہترین پروگرامر، تخلیقی آرٹسٹ، کام یاب یوٹیوبر، جدت پسند انٹرپرینیور یا بہترین کاروباری ذہنیت رکھنے والا ہو، مگر ہمارا نظام ایسے بچوں کو ناکامی کا سرٹیفکیٹ دے دیتا ہے اور اُن کی خوداعتمادی کو کچل دیتا ہے۔
کیا پاکستان میں ایسے اسکول نہیں ہونے چاہییں جہاں بچے ہنر اور کاروبار کے طریقے وغیرہ سیکھ سکیں؟ کیوں نہ ہم ہر ضلع میں ایسے ادارے قائم کریں، جہاں ٹیکنیکل، ووکیشنل یا بزنس ایجوکیشن دی جائے، تاکہ بچہ اپنی فطری صلاحیت کے مطابق تعلیم حاصل کرسکے؟
ٹیکنیکل ایجوکیشن ایک ایسا راستہ ہے، جو نہ صرف بچوں کو ہنر مند بناتا ہے، بل کہ اُنھیں عزت کے ساتھ روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔ آج جرمنی یا جاپان جیسے ملکوں کی ترقی کا راز یہی ہے کہ وہاں ہر بچے کو کتابی علم کے ساتھ ساتھ عملی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ "NAVTTC” اور "TEVTA” جیسے ادارے موجود ہیں، لیکن اُن کا دائرہ محدود ہے، اور سماجی رویے اب بھی ہنر کو ’’کم تر‘‘ سمجھتے ہیں۔
ویسے بھی، پرائیویٹ اسکول اور کالجوں کی بھرمار کے بعد تعلیم اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اساتذہ، جن پر قوم کا مستقبل سنوارنے کی ذمے داری ہے، زیادہ تر خود ٹیوشن سینٹر اور اکیڈمیوں کے کاروبار شروع کرچکے ہیں۔ اسکول کے اندر وہی استاد، جو تنخواہ لے رہا ہے بچوں کو مکمل مضمون پڑھانے کے لیے، اپنے ہی طالب علموں سے کہتا ہے، ’’اگر سائنس مضامین کو صحیح طرح سمجھنا ہے یا میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبر لینے ہیں، تو فُلاں فُلاں اکیڈمی میں داخلہ لو!‘‘ یہ کیسا نظام ہے؟ اگر مَیں اُستاد ہوتا، تو مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر اسپتال میں مریض کا صرف سرسری معائنہ کرے اور کہے، ’’اگر صحیح علاج اور درست تشخیص چاہیے، تو میرے پرائیویٹ کلینک آجائیں!‘‘جہاں وہ مریض سے فیس وصول کرکے پرائیویٹ لیبارٹریوں سے مہنگے ٹیسٹ کروا کر اچھی کمائی کرتا ہے۔ یا جیسے آپ کہیں سے بریانی خریدیں اور وہ دکان دار کہے، ’’اگر میری بریانی کا اصل ذائقہ چاہیے، تو فُلاں جگہ سے مزید سالے یا فُلاں چٹنی والے سے چٹنی لے لیں!‘‘
یہ رویے اس مقدس پیشے کو صرف ایک تجارتی کاروبار میں بدل رہے ہیں، جہاں علم کے بہ جائے آمدنی اہم ہوگئی ہے۔ اگر استاد اسکول ہی میں پورا مضمون نہ پڑھائے، تو یہ طالب علم کے ساتھ ناانصافی اور قوم کے ساتھ دھوکا ہے۔
تعلیم صرف ’’اے پلس گریڈ‘‘ لینے کا نام نہیں، بل کہ یہ زندگی کو بہتر بنانے، خود کو پہچاننے، اور دوسروں کے کام آنے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہر بچہ ایک جیسا نہیں، ہر ذہن ایک جیسا نہیں اور ہر کام یابی کی کہانی بھی ایک جیسی نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان باعزت، باہنر اور باکردار بنے، تو ہمیں تعلیم کے نئے دروازے کھولنے ہوں گے۔ ایسے دروازے جو صرف کلاس روم اور بلیک بورڈ تک محدود نہ ہوں، بل کہ ورکشاپس، مارکیٹس، اسٹوڈیوز اور فیلڈز تک پھیلے ہوں۔
پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حالتِ زار اس حد تک ابتر ہوچکی ہے کہ اعلا تعلیمی اسناد رکھنے والے افراد بھی مجبوری کے عالم میں اپنی فیلڈ سے بالکل مختلف، کم تنخواہ اور کم حیثیت نوکریاں کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
حال ہی میں میری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے ہوئی جس نے مائیکروبیالوجی میں ایم فل کیا ہے، مگر وہ آج عدالت میں صرف ’’پروسس سرور‘‘ یعنی عدالتی نوٹس پہنچانے والے کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔
ایک اور نوجوان، جو انجینئرنگ کی ڈگری رکھتا ہے، کلرک کے عہدے پر فائلوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے، جب کہ ایک تیسرے نوجوان کو مَیں جانتا ہوں جو ڈبل ماسٹرز ہونے کے باوجود ایک کلاس فور کی پوسٹ پر تعینات ہے۔ ان مناظر کو دیکھ کر بے حد دکھ ہوتا ہے کہ آخر ان بچوں نے برسوں کی محنت، وقت، پیسا اور توانائی اس لیے لگائی تھی کہ وہ آخرِکار اپنی قابلیت سے کہیں کم درجے کا کام کریں؟ اگر یہی نوکریاں کرنی تھیں، تو پھر یونیورسٹیوں، کالجوں اور پروفیشنل ڈگریوں پر اتنا سرمایہ، اتنا وقت کیوں صرف کیا گیا؟
یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام نہ صرف نوجوانوں کی فطری صلاحیتوں سے میل نہیں کھاتا، بل کہ ان کے لیے ایسا کوئی عملی راستہ بھی فراہم نہیں کرتا، جس سے وہ اپنی تعلیم کو معاشی تحفظ میں ڈھال سکیں۔ ایسے حالات میں قوم کا باصلاحیت دماغ یا تو مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، یا پھر ملک چھوڑنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ یوں ہم ’’برین ڈرین‘‘ جیسے خطرناک مسئلے کو خود ہی جنم دیتے ہیں۔
کیا یہ ضروری نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نوجوانوں کو صرف ملازمت کے پیچھے دوڑانے کے بہ جائے انھیں خود روزگار کے قابل بھی بنائے؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی لاکھوں نوجوان ڈگریوں کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، مگر انھیں تعلیم کے دوران میں نہ تو کاروبار کے عملی اُصول سکھائے جاتے ہیں، نہ مالیاتی نظم و نسق اور نہ کوئی ایسی مہارت ہی دی جاتی ہے، جس سے وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ اگر ہر تعلیمی ادارہ اپنے طالب علموں کو ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا کاروباری منصوبہ تیار کرنے، مارکیٹ کا تجزیہ کرنے اور کسی ہنر کو منافع میں بدلنے کی تربیت دے، تو لاکھوں نوجوان خود انحصار بن سکتے ہیں۔ ہمیں ایسے سسٹم متعارف کروانے کی ضرورت ہے، جو طالب علموں کو صرف نوکری کا متلاشی نہ بنائیں، بل کہ اُنھیں چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار شروع کرنے کے قابل بنائیں۔ معاشی خودمختاری صرف نوکریوں سے نہیں، ہنر، خود اعتمادی اور اختراعی سوچ سے حاصل ہوتی ہے اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ ہمارے تعلیمی اداروں سے غائب ہے۔
میری حکومتِ وقت سے یہ پُرخلوص درخواست ہے کہ وہ تعلیم کے اس محدود اور یک طرفہ تصور کو بدلنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ محض نصاب، نمبر اور امتحانات کی بنیاد پر بچوں کی قابلیت کا فیصلہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہر ضلع میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جہاں جدید ٹیکنیکل، ووکیشنل اور بزنس ایجوکیشن دی جاسکے، تاکہ ہر بچہ اپنی فطری صلاحیت کے مطابق ترقی کرسکے۔ اساتذہ کے لیے ایک شفاف اور موثر احتسابی نظام متعارف کرایا جائے، تاکہ اسکولوں میں تعلیم مکمل طور پر دی جاسکے اور ٹیوشن مافیا کا خاتمہ ہو۔ اکیڈمیز، ٹیوشن سینٹرز اور پرائیویٹ اسکولوں کا موثر اور دیانت دارانہ مانیٹرنگ سسٹم تشکیل دیا جائے…… اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس مانیٹرنگ نظام کی خود اتنی ہی سخت نگرانی ہو، کیوں کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سب سے زیادہ مانیٹرنگ کی ضرورت مانیٹرنگ کرنے والوں کو ہوتی ہے۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ میرے ملک کے کرپٹ ترین نظام میں ایک دیوانے کا خواب ہی ہے، لیکن ایک حساس اور دردِ دل رکھنے والے شہری کی حیثیت سے میری یہ آرزو ہے کہ میرے وطن کے بچوں کو وہ تعلیم ملے، جو صرف نمبر نہیں، کردار، شعور، ہنر اور انسانیت دے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے