فیاض ظفر، پیشہ ورانہ صحافت کا استعارہ

Blogger Engineer Miraj Ahmad

فیاض ظفر کا تعلق سوات جیسے خوب صورت، مگر تاریخ کے تلخ بابوں سے گزرے ہوئے علاقے سے ہے۔ یہاں کی سرزمین قدرتی حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود کئی دہائیوں تک شدت پسندی، عسکریت پسندی اور ریاستی بے توجہی کا شکار رہی۔ ایسے ماحول میں صحافت کرنا گویا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے، مگر فیاض ظفر نے نہ صرف اس راہ کا انتخاب کیا، بل کہ ثابت قدمی سے اس پر چلتے رہے۔
فیاض ظفر کی صحافت محض خبر رسانی تک محدود نہیں، بل کہ اُن کا مشاہدہ، تحقیق اور زبان پر عبور اُن کی تحریروں اور رپورٹس میں بہ خوبی جھلکتا ہے۔ اُن کے جملے قارئین کو جھنجھوڑتے ہیں، اُن کی تحریر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور اُن کی رپورٹس ایک عام خبر کو ایک بڑی کہانی میں ڈھال دیتی ہیں۔
فیاض ظفر نہ صرف سوات میں ہونے والے فوجی آپریشنوں، متاثرہ افراد کی بہ حالی اور بے گھر ہونے والے خاندانوں کی حالتِ زار کو سامنے لائے، بل کہ ان علاقوں کی خاموش کہانیوں کو قومی منظرنامے تک پہنچایا، جنھیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب ریاست اور شدت پسندوں کے درمیان پسنے والے عام لوگوں کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی تھی۔ فیاض ظفر نے اُن آوازوں کو لفظوں میں ڈھالا، ویڈیوز اور انٹرویوز کے ذریعے اُنھیں انسانیت کے کٹہرے میں پیش کیا۔ اُن کی صحافت کی سب سے بڑی طاقت اُن کا عوام سے بہ راہ راست رابطہ ہے۔
فیاض ظفر کاغذ یا اسکرین کی حد تک محدود نہیں، بل کہ گراؤنڈ پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ عوام کے درمیان، اُن کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے اور پھر اُس کو صحافتی معیار پر پرکھ کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
فیاض صاحب کا شمار اُن صحافیوں میں ہوتا ہے، جو میڈیا کے مرکزی دھارے سے باہر رہ کر بھی قومی دھارے میں اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ صحافت کو ایک مقدس ذمے داری سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر خبر کو غیر جانب دارانہ، منصفانہ اور ذمے دارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
فیاض صاحب کے ناقدین بھی اُن کی اُصول پسندی اور جرأت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اُنھیں سستی شہرت یا ریٹنگ کا لالچ کبھی نہیں بہکا سکا، جس کا ثبوت اُن کا مستقل مزاج اور متوازن لہجہ ہے۔
قارئین! فیاض ظفر نے کئی ایسے انٹرویوز کیے ہیں، جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر زیرِ بحث آئے۔ اُنھوں نے دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں، حکومتی نمایندوں اور عام شہریوں سے ایسے سوالات کیے جو عام صحافی پوچھنے سے کتراتے ہیں۔
فیاض صاحب کا انداز سوالیہ ضرور ہوتا ہے، مگر الزام تراشی سے پاک اور اُصولی گفت گو کا نمونہ ہوتا ہے۔ یہی خوبی اُنھیں ایک سنجیدہ، باضمیر اور تحقیق پر مبنی صحافی کے طور پر ممتاز کرتی ہے۔
فیاض صاحب کی صحافت صرف مسائل کی نشان دہی تک محدود نہیں، بل کہ حل کی طرف بھی راہ نمائی کرتی ہے۔ وہ ترقیاتی کاموں، حکومتی اصلاحات اور سماجی بہتری کے لیے تجاویز بھی دیتے ہیں، جو اُن کی صحافت کو صرف تنقید سے نکال کر تعمیری عمل کا حصہ بناتی ہے۔ اُنھوں نے کئی بار صحافیوں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی اور خود صحافی برادری کے اندر احتساب کی بات کی، جو اُن کے کردار کی شفافیت کو ظاہر کرتا ہے۔
فیاض ظفر کی زندگی اور صحافتی سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت صاف ہو، مقصد واضح ہو اور عوام کی خدمت کا جذبہ موجود ہو، تو صرف ایک فرد بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
فیاض صاحب نے وہ راستہ چُنا جس پر چلنا آسان نہ تھا، مگر اُن کی استقامت اور پیشہ ورانہ دیانت نے ان کے لیے راستہ ہم وار کیا۔ آج وہ نہ صرف سوات، بل کہ پورے ملک کے لیے ایک مثال ہیں۔
دست بہ دعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں صحتِ کاملہ نصیب فرمائے، آ مین ثم آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے