ریاست سوات، جب شاہی علم اُتارا گیا

Blogger Fazal Raziq Shahaab


یوسف زئی ریاست سوات کا شاہی علم 28 جولائی 1969ء کو آخری بار شام کے وقت ’’فلیگ سٹاف‘‘ سے اُتارا گیا اور پھر ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیا گیا۔
پھر نہ کسی نے شاہی علم والئی سوات کی رہایش گاہ پر لہراتے دیکھا، نہ اُن کی آف وائٹ مرسیڈیز کے بونٹ پر۔
عجب افراتفری اور غیر یقینی کا عالم تھا۔ عام سواتی کو پتا ہی نہیں تھا کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟
28جولائی کی شام 4 بجے ہم نے اپنے پڑوسی ڈاکٹر شیرین جان صاحب کے ہاں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ کی تقریر سنی۔
اُس کے ذیل میں دیے گئے الفاظ اُس کی ذہنی سطح کے عکاس ہیں:
"I have descided to merge the states of Dir, Swat & Chitral into West Pakistan.”
اگلے روز سیدو شریف کے باشندوں اور کچھ قریبی علاقوں کے لوگوں نے احتجاج کیا، مگر والئی سوات نے کچھ بزرگوں کو اپنے پاس بلایا اور اُن کو منتشر ہونے کی اپنی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ وہ سوات ہی میں رہنا چاہتے ہیں۔
نیز یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اسے نواب شاہ جہاں کی مانند سوات بدر نہ کیا جائے۔
فریڈرک بارتھ کو اپنے انٹرویو میں بھی وہ کہتے ہیں کہ ریاست کے پاس مزاحمت کے وسائل نہیں تھے۔ پاکستان چاہتا تو ایک بم مینگورہ اور ایک سیدو پر گرا کر قصہ ہی ختم کردیتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کیا، پوری دنیا میں والی صاحب کا کوئی گھر نہیں تھا۔ بس یہی سیدو شریف والی رہایش گاہ تھی، جو اَب نہایت ابتر حالت میں ہے۔
ادغام کا اعلان اور اس کے مابعد اقدامات اتنے بھونڈے انداز میں کیے گئے کہ نہ کوئی قانون سازی کی گئی، نہ کوئی متبادل سٹ اَپ ہی تھا۔
16 اگست 1969ء تک والی صاحب حسبِ سابق روزمرہ کے اُمورِ ریاست چلاتے رہے صرف ایک واضح فرق کے ساتھ کہ دفتر کے بہ جائے بنگلے میں دفتر رکھا گیا۔
اب جو لوگ کسی نامعلوم معاہدے کا دعوا کر رہے ہیں،کسی خصوصی حیثیت کا ذکر کر رہے ہیں،پتا نہیں ایسا کچھ ہے بھی یا ہوا میں تیر مارے جا رہے ہیں؟
آئین کا دفعہ 247 کیا ہے؟ اس کی تنسیخ پر سابقہ ریاستوں کی حیثیت پر کیا اثر پڑا ہے؟ یہ تو وکلا حضرات ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
میری رائے تو یہ ہے کہ ریاستوں کے انضمام کا فیصلہ بہت عجلت میں اور بھونڈے انداز میں کیا گیا۔ پھر کسی روڈ میپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے ریاستی ملازمین کا معاملہ کچے پکے انداز میں ڈیل کیا گیا۔ اگر اُس وقت کی "Integration Committee” کی فراست کام نہ آتی، تو یہ مسئلہ بھی لمبا اور لاینحل ہوکر رہ جاتا۔
مجھے اس وقت 1965ء ستمبر کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ صدر ایوب اُن دنوں سوات میں تھے۔ بارڈر پر حالات کے پیشِ نظر بھٹو صاحب سوات آئے تھے۔ صدر سے مشورے کے بعد وہ والی سوات سے بھی ملے۔
باتوں باتوں میں بھٹو نے والی صاحب کو مشورہ دیا کہ اپنا سکرٹیریٹ گالف کورس کبل میں منتقل کردیں۔ سارے دفاتر بنگلے کے قریبی علاقے سے کبل میں عمارات تعمیر کرواکر شفٹ کردیں۔ کل کو اگر ریاست چلی بھی جائے، تو اردگرد کا ماحول پُرسکون رہ جائے گا۔
گرچہ والی صاحب نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی، مگر بعد کے ہنگاموں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اندیشوں کی تصدیق کردی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے