غفور خان عادل کی صحافتی زندگی

Blogger Hilal Danish

یہ تحریر ایک طرح سے صحافت کے مخلص راہی، حق گوئی، خودداری اور خندہ پیشانی کے پیکر کی خدمات کا اعتراف ہے، جن کے قلم نے سچ لکھا، دل نے سچ بولا اور زندگی نے سچ پر قربانی دی۔ یہ وہی غفور خان عادل ’’بھائی جان‘‘ ہیں، جنھوں نے ہمیں قلم کی حرمت سکھائی۔
صحافت کی پُرپیچ وادی میں جب مَیں نے پہلا قدم رکھا، نہ کوئی نقشا ہاتھ میں تھا، نہ کوئی راہ نما سامنے تھا۔ فقط ایک بے قرار شوق تھا، جو دل کے نہاں خانوں میں روشنی کا چراغ بن کر جل رہا تھا۔ ایسے میں اگر کوئی دستِ شفقت نہ بڑھتا، تو میرا یہ سفر شاید آغاز ہی میں اختتام پذیر ہوجاتا۔ وہ دستِ شفقت، وہ راہ نما، وہ میرے پہلے صحافتی استاد، معروف صحافی غفور خان عادل ’’بھائی جان‘‘ تھے۔
روزنامہ بشارت کا وہ تاب ناک دور آج بھی یادوں کی پیشانی پر نقش ہے۔ مَیں، جس نے ابھی دسویں جماعت کا امتحان بھی مکمل نہ کیا تھا، صحافت کے اسرار و رموز سے نابلد تھا۔ کالم، اداریہ، خبر، سرخی، ہیڈ لائن اور سپر ہیڈ لائن یہ سب الفاظ میرے لیے اجنبی تھے، مگر بھائی جان نے محبت، صبر اور خلوص سے قدم قدم پر راہ نمائی کی، قلم تھامنے کا سلیقہ سکھایا اور سچ لکھنے کا حوصلہ بخشا۔
یہ وہ دن تھے، جب سوات کی وادی میں صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ پورے آب و تاب سے جاری تھی۔ مَیں اور میرے ہم سفر، معروف صحافی فیاض ظفر، نے ایک ساتھ اس کاروان میں شمولیت اختیار کی…… لیکن آج اگر میں قلم کو سنوارنے اور لفظوں کو برتنے کی ادنا صلاحیت رکھتا ہوں، تو اس کی بنیاد غفور خان عادل ’’بھائی جان‘‘ کی محنت، مسلسل تربیت اور بے لوث راہ نمائی کا ثمر ہے۔ ایسے میں اگر اُن کا تذکرہ نہ کیا جائے، تو یہ سب سے بڑی ناانصافی ہوگی۔
بھائی جان کی زندگی سادگی، خودداری اور پیشہ ورانہ عظمت کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ غربت کی گہری چھاؤں کبھی ان کے قلم کی روشنی کو مدھم نہ کرسکی۔ دو تین کمروں کے سادہ کچے مکان میں رہایش پذیر ہونے کے باوجود دل کے غنی اور کردار کے امیر تھے۔ کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا۔ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا اور حق گوئی کی راہ اپنائی۔ زرد صحافت کے مخالف تھے اور ہم جیسے نو آموزوں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ اُن کی گفت گو میں متانت کا ایسا وقار تھا کہ کبھی تلخی یا تندی کا شائبہ تک نہ آتا۔ وہ ہمیشہ ٹھہراو اور شایستگی سے بات کرتے۔ صاف گوئی اور حق گوئی اُن کی شخصیت کی بنیاد تھی۔ کسی کی خوش نودی کے لیے سچ چھپایا، نہ کسی مصلحت کا شکار ہی ہوئے ۔
خودداری بھائی جان کی زندگی کا تاج تھی۔ معاشی تنگی اور فقر کے باوجود عزتِ نفس کی دولت سے مالا مال رہے۔ دو کمروں کے سادہ مکان میں رہنے والا یہ شخص دل کا ایسا غنی تھا کہ بادشاہوں کے دل بھی اس کشادگی پر رشک کریں۔ خندہ پیشانی ان کی شخصیت کا خاصا رہی۔ مشکل حالات میں بھی مسکراہٹ اُن کے چہرے سے جدا نہ ہوئی۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، پرستار ہوں یا ناقد، سب کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت سے پیش آتے۔ اُن کی صحبت میں بیٹھنے والا دل کی گہرائی سے مطمئن ہوکر اُٹھتا۔
بڑاپن ان کی فطرت میں ایسا رچا بسا تھا کہ دوسروں کی خطاؤں کو درگزر کرتے، کم زوروں کی مدد کرتے اور ہم جیسے نو آموزوں کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کرتے۔
آج جب وہ عارضۂ قلب اور دیگر امراض میں مبتلا ہیں، تو ہم اُن کی گراں قدر خدمات، محبتوں اور تربیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اے قلم و قرطاس کے مالک رب! اس چراغ کو بجھنے نہ دینا، اس روشنی کو سلامت رکھنا۔
اے دلوں کے حال جاننے والے پروردگار! غفور خان عادل ’’بھائی جان‘‘ کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرما۔ ان کی زندگی میں سکون، برکت اور راحتیں بھر دے، آمین یا رب العالمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے