جنگ ہمیشہ ہتھیاروں کا تاجر جیتتا ہے

Blogger Mehran Khan

پروفیسر ٹائن بی کا قول ہے کہ ’’تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کبھی کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔‘‘
اس قول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر انسانی تاریخ کا منطقی جائزہ لیا جائے، تو جنگ ایک آسیب کی طرح ازل سے انسانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ انسانوں نے بہت ساری خونی جنگیں لڑی ہیں، لیکن ان تمام جنگوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا، بل کہ ہر بار ایک جنگ کے اختتام پر کچھ وقفہ کے بعد دوسری نئی جنگ شروع کی ہے۔
انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ یعنی تمام جنگوں کی ماں’’ہیلن آف ٹرائے‘‘ سے لے کے ایٹم بم پر ختم ہونے والی دوسری جنگِ عظیم تک کے دورانیے میں انسان نے کتنی جنگیں لڑی ہیں…… وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
پیلپونیسین جنگ (Peloponnesian war) ہو یا پھر سکندرِ اعظم کی لڑائیاں ہوں…… سب میں انسان جنگ کا ایندھن بنے ہیں۔
جولیس سیزر کی گلیگ جنگیں ہوں، اسلامی لڑائیاں ہوں، صلیبی جنگیں ہوں، 100 سالہ جنگ ہو، یا پھر عیسائیت کی 30 سالہ مذہبی جنگ ہوں، سبھی میں انسانی تہذیب برباد ہوئی ہے۔
چنگیز خان کی وحشت سے لے کے امیر تیمور کی جنونی کارستانیوں تک سب کچھ تاریخ کے پنّوں میں محفوظ ہے۔
مغل حکم ران ہوں، نپولین بونا پارٹ ہو، انگریز ہوں، بسمارک ہو یا پہلی جنگ عظیم برپا کرنے والی باقی قوتیں ہوں، سب تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد کورین جنگ، ویت نام جنگ اور افغان جنگ میں کتنی بربادی ہوئی؟ وہ سب اَب تاریخ کا حصہ ہے۔
غزہ میں جاری نسل کشی ہو، یوکرین میں جاری بربادی ہو، یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والی بربریت ہو، یہ سب ہم اپنی نظروں سے دیکھ چکے ہیں اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔
جنگ ایک دیوتا ہے، جسے بقا کے لیے مسلسل انسانی خون چاہیے۔
جنگ کو کٹے پھٹے انسانی اعضا اچھے لگتے ہیں۔ یہ انسانوں کو معذور کرتی ہے۔
جنگ گود اجھاڑتی ہے، جنگ آنکھوں کو ویران اور خالی کر دیتی ہے، جنگ بھوک اور بیماریاں مفت میں بانٹتی ہے، جنگ خوب صورتی کا قتل کرتی ہے، جنگ خوب صورت شہروں اور عمارتوں کو کھنڈر بنا دیتی ہے، جنگ فطرت کا بہیمانہ قتل کرتی ہے اور ماحول کو بارود کی ناگوار بُو سے متعفن کرتی ہے، جنگ گناہ گاروں اور معصوموں میں تمیز نہیں کرتی، جنگ چادر اور چار دیواری کو پامال کرتی ہے، جنگ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا لحاظ نہیں کرتی، جنگ انسانوں کو مٹاتے وقت رنگ، نسل، ذات پات ، اُونچ نیچ اور مذہب کا فرق نہیں کرسکتی، جنگ کی کوکھ سے نفرت اور بربادی ہی جنم لیتی ہے، جنگ حسین خوابوں کو روند کے انسانوں میں دکھ بانٹتی ہے، جنگ قلم چھین کے بندوق پکڑا تی ہے، جنگ میں انسانی زندگیاں، زخم اور بربادیاں اعداد و شمار کا روپ دھار تی ہے، جنگ سے وہ لوگ محبت کرتے ہیں، جنھوں نے جنگ کی ہول ناکی نہیں دیکھی ہوتی، یا جن کا مفاد جنگ سے جڑا ہوتا ہے، یا پھر جو ذہنی معذور ہوتے ہیں۔
جنگ میں ہتھیاروں کے تاجر ہی اصل میں جیتتے ہیں، لیکن تاریخ سب یاد رکھتی ہے کہ کون جنگ کا حامی تھا، کون جنگ کا مخالف تھا اور کس نے جنگ میں کیا پایا اور کیا کھویا ……!
’’غزوۂ ہند‘‘ اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا ڈھول پیٹنے والوں کو اپنے ماضی کی چار بڑی جنگوں سے سیکھ کر جنگ سے اجتناب کرنا چاہیے۔
خصوصاً بھارت نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے ’’آرٹیکل 51‘‘ کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے۔
پاکستان جوابی کارروائی کا اَب پورا پورا حق رکھتا ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کے آخر میں جنگ چھیڑنے والے مل بیٹھ کے جنگ کی بربادیوں پر اظہارِ افسوس کرکے ہاتھ ملالیتے ہیں اور یہ وعدہ کرلیتے ہیں کہ اگلی بار نہیں لڑیں گے اور پھر کچھ برس بعد اپنا وعدہ بھول کر نئی جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوں گے بل کہ مزید مسائل جنم لیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ سے مسائل کبھی حل نہیں ہوئے۔ جنگ کے بادل چھٹنے تک ہم انسانی بے حسی پر ماتم ہی کرسکتے ہیں اور بس!
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے