وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف آئے دن مہنگائی کی شرح میں کمی کے جو دعوے کرتے ہیں، وہ اتنے غلط بھی نہیں۔ اس دعوے کے پیچھے دراصل حکومت کی ایسی باریک واردات ہوتی ہے، جسے سمجھنا عوام کے بس کی بات نہیں۔ اگر کل کلاں کو حکومت یہ دعوا کر دے کہ مہنگائی میں اضافے کی شرح منفی اعداد میں چلی گئی ہے، تو آپ اس پر یقین کرلیجیے گا کہ ہر حکومت کے پاس لفظوں کے بازیگر ایسے ایسے شعبدہ باز ماہرینِ معیشت کی ٹیم ہوتی ہے، جو موت کو بھی اس قدر دل نشیں اور نجات دہندہ بنا کر پیش کر سکتی ہے کہ سننے والا بے اختیار مرنے کی تمنا کرنے لگے یا خودکشی کا سوچنے لگے۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس باریک نکتے کو سمجھنا ہو گا کہ شرحِ مہنگائی میں اضافہ سے کیا مراد ہے؟
ہم اکثر یہ دعوے سنتے ہیں کہ موجودہ مہینے میں مہنگائی کی شرح گذشتہ 80 مہینے کی نسبت کم ترین سطح پر رہی۔ ہم فوراً ہی 80 مہینے پہلے کی قیمتوں سے موجودہ قیمتوں کا موازنہ شروع کر دیتے ہیں، حالاں کہ حکومت مہنگائی میں کمی کا دعوا تو کرتی ہی نہیں۔ وہ تو ’’شرحِ مہنگائی‘‘ میں کمی کا دعوا کرتی ہے۔ آئیے، آپ کو یہ بات وضاحت سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
فرض کیا 7 سال پہلے سیمنٹ کی بوری 500 روپے کی تھی۔ اس سال مہنگائی میں 10 فی صد اضافہ ہوا، تو وہ بوری سال کے اخیر میں 550 روپے کی ہوگئی۔
اگلے سال مہنگائی کی شرح 20 فی صد رہی، تو وہ بوری 550 روپے میں 20 فی صد کی شرح سے بڑھ کر 660 روپے کی ہوگئی۔
تیسرے برس پھر 20 فی صد اضافہ ہوا، تو وہی بوری قریباً 800 روپے میں ملنے لگی۔
چوتھے برس مہنگائی کی شرح 25 فیصد ہونے سے وہ قیمت بڑھ کر 1000 روپے ہو گئی۔
پانچویں برس پھر مہنگائی کی شرح 25 فی صد رہی۔
اب پانچ سال پہلے 500 روپے میں ملنے والی سیمنٹ کی بوری کی قیمت 1250 روپے ہوگئی۔ حکومت نے دعوا کیا کہ اس مرتبہ ہم نے مہنگائی پر کنٹرول کرلیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 9 فی صد رہی ہے، جو گذشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح ہے۔ سیمنٹ کی بوری میں 110 روپے کا اضافہ ہوگیا اور اس کی کُل قیمت 1360 روپے ہوگئی۔
جب حکومت گذشتہ 5 سال کی کم ترین شرح مہنگائی کا دعوا کرتی ہے، تو ہم 5 سال پہلے کی قیمت 500 روپے سے 1360 روپے کا موازنہ کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں حکومتی دعوا غلط لگنے لگتا ہے۔ شرحِ مہنگائی میں کمی سے اشیا کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں، اُن میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
جہاں تک مہنگائی میں کمی کے دعوے ہیں، تو بعض چیزوں کے ریٹ یقینا کم ہوئے ہیں۔ گندم کی قیمت قریباً آدھی ہوگئی ہے۔ 4 ہزار سے 2 ہزار روپے من تک آ جانا واقعی کارنامہ ہے۔ اس کا کسان اور زمین دار کو تو نقصان ہوا، مگر صارف کو کیا فائدہ ہوا؟
گندم کی قیمت آدھی مگر روٹی پرانی قیمت پر مل رہی ہے۔ بسکٹ اور بیکری کی پراڈکٹس میں ایک روپے کی کمی نہیں ہوئی۔ سبزیوں کی قیمتیں یقینا کم ہوئی ہیں، لیکن اس میں حکومت سے زیادہ موسم کا ہاتھ ہے۔ ادویہ کی قیمتیں اور ڈاکٹروں کی فیسیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ آپ بازار کپڑا خریدنے جائیں، تو کانوں کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاتے ہیں۔ سیب اور انار کا صرف دیدار کرسکتے ہیں۔ خشک میوہ جات قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ جوتے خریدنے جائیں، تو قیمت سن کر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے…… مگر حکومت کے کاغذات میں مہنگائی سنگل ڈجیٹ میں آچکی ہے۔ کیوں کہ وہ جب اعداد و شماد نکالے گی، تو گندم اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی کو شامل کرکے اوسط نکال کر پیش کر دے گی۔
مجھے لگتا ہے کہ شرحِ مہنگائی میں شد و مد سے کمی کے دعوے کرکے حکومت گراؤنڈ تیار کر رہی ہے کہ آنے والے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو کم سے کم ریلیف دینے کا جواز مہیا کرسکے۔ حالاں کہ اس نے ایم پی ایز، ایم این ایز اور وزرا کی تنخواہوں میں بجٹ سے پہلے ہی قریباً 200 فی صد اضافہ کرکے شرحِ مہنگائی میں کمی کے اپنے ہی دعوے کی نفی کر دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ مہنگائی سرکاری ملازمین کے لیے بھی اسی شرح سے بڑھی ہے، جس شرح سے منتخب عوامی نمایندوں اور وزرا کے لیے بڑھی ہے۔ سرکاری ملازمین بھی اپنے نمایندوں جتنی شرح سے تنخواہوں میں اضافے کے مستحق ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ اپنے عمل سے ملک میں ’’دو قومی نظریہ‘‘ کو فروغ دینے کی بہ جائے تمام شہریوں سے یک ساں سلوک کرکے ثابت کرے کہ ہم ایک قوم ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
