برفانی علاقوں کا پگھلنا ایک عالمی ماحولیاتی چیلنج ہے، جس کے اثرات اب ترقی پذیر ممالک تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقے جیسے سوات، اس بحران کا سامنا کرنے والے اولین خطوں میں شامل ہیں۔ یہاں موجود گلیشیر، پاکستان کے پانی کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (PCRWR) کے مطابق پاکستان میں 7,253 گلیشیر ہیں، جو دنیا کے کسی بھی غیر قطبی خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ اُن میں سے کئی گلیشیر، سوات کی وادی میں واقع ہیں۔
’’ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر‘‘ (WWF) کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوکش-ہمالیہ خطے کے گلیشیر گذشتہ چند دہائیوں میں اوسطاً 1.5 میٹر فی سال کی رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ سوات میں واقع فلک سیر اور مٹلتان جیسے علاقوں کے گلیشیر میں گذشتہ 20 برسوں کے دوران میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق صرف 1999ء سے 2018ء تک، اس خطے کے گلیشیر کا تقریباً 17 فی صد رقبہ کم ہوچکا ہے (ذرائع: ICIMOD – International Center for Integrated Mountain Development)
یہ تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیر صرف مقامی ماحول کو ہی نہیں، بل کہ ملکی سطح پر آبی وسائل کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں 80 فی صد پانی کا انحصار دریائے سندھ پر ہے، جسے بنیادی طور پر گلیشیر سے بہنے والے پانی سے تقویت ملتی ہے۔ جب یہ گلیشیر غیر معمولی حد تک پگھلتے ہیں، تو وہ ’’گلاف‘‘ (Glacial Lake Outburst Floods) جیسے خطرناک سیلاب کا باعث بنتے ہیں، جیسا کہ 2022ء میں چترال اور سوات کے بعض علاقوں میں ہوا۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (UNEP) کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر عالمی درجۂ حرارت میں 2C کا اضافہ ہوجائے، تو ہندوکش-ہمالیہ کے تقریباً 50 فی صد گلیشیر 2100ء تک ختم ہوسکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سوات جیسے علاقوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں، جہاں کی زراعت، پینے کے پانی کا نظام اور سیاحتی صنعت بڑی حد تک انھی برفانی ذخائر پر منحصر ہے۔
سمندری سطح میں اضافے کا تعلق بھی گلیشیر کے تیزی سے پگھلنے سے جڑا ہوا ہے۔ ’’ناسا‘‘ (NASA) کی تحقیق کے مطابق، صرف گلوبل گلیشیر پگھلاو کی وجہ سے ہر سال سمندر کی سطح میں تقریباً 0.7 ملی میٹر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک معمولی مقدار معلوم ہوتی ہے، لیکن دہائیوں پر محیط اس کا اثر ساحلی شہروں کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر یہی رفتار جاری رہی، تو 2100ء تک سمندری سطح میں 1 میٹر تک اضافہ ممکن ہے، جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگ متاثر ہوں گے، بہ شمول پاکستان کے ساحلی علاقے ۔
سوات جیسے علاقوں میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ فصلوں کے اوقات متاثر ہوچکے ہیں، پھل دار درخت قبل از وقت پھل دے رہے ہیں، اور بارشوں کی نوعیت غیر متوقع ہوگئی ہے۔
’’پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے مطابق، سوات میں گذشتہ 15 سالوں کے دوران میں گرمیوں کا درجۂ حرارت اوسطاً 1.2C بڑھ چکا ہے، جب کہ سردیوں میں برف باری کی شدت میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔
حل کے طور پر سوات میں ’’گلیشیر واچ پروگرامز‘‘ قائم کیے جا سکتے ہیں، جیسا کہ گلگت بلتستان میں ہو رہے ہیں، جہاں مقامی کمیونٹی، حکومتی ادارے اور ماہرینِ ماحولیات مل کر گلیشیر کی نگرانی اور پانی کے محفوظ استعمال پر کام کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ’’گرین پاکستان پروگرام‘‘ جیسے اقدامات کو سوات میں موثر طریقے سے لاگو کیا جانا چاہیے، تاکہ جنگلات کی کٹائی روکی جا سکے اور مقامی درجۂ حرارت کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔
ان تمام سائنسی و شماریاتی حقائق کے تناظر میں یہ واضح ہے کہ سوات جیسے پہاڑی علاقے صرف ایک خوب صورت وادی نہیں، بل کہ ماحولیاتی توازن کے لیے ایک اہم ستون ہیں۔ اگر ان علاقوں میں موجود گلیشیروں کی حفاظت نہ کی گئی، تو نہ صرف مقامی آبادی، بل کہ پورا ملک آبی، ماحولیاتی اور معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
