سوشل میڈیائی دانش گرد اور دین اسلام

Blogger Khwaja Naveed

کچھ دانش گرد اسلام کے بارے میں سوشل میڈیا پر بار بار یہ بحث اُچھالتے ہیں کہ کیا واقعی یہ زندگی گزارنے کا مکمل ضابطۂ حیات ہے؟ یہ لوگ اس بدیہی حقیقت کو ایک مغالطہ گردانتے ہیں اور دعوا کرتے ہیں کہ اسلام صرف مراسمِ عبودیت (نماز، روزہ، حج وغیرہ) اور روحانی پاکیزگی کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنیاوی معاملات چلانے کے لیے۔ وہ اسلام کو ایک سادہ مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق، اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کہنا غلط ہے۔ کیوں کہ کسی بھی مذہب میں ہر زمانے کے مسائل کا حل جزئیات میں موجود نہیں ہوتا۔
یہ نکتۂ نظر ایک محدود اور جزوی فہم پر مبنی ہے، جو دنیا کے پیچیدہ اور باہم مربوط نظاموں (Systems) کی نوعیت کو نظرانداز کرتا ہے۔ درحقیقت، اس طرح کے دلائل اکثر اُن افراد کی طرف سے آتے ہیں، جن کی سوشل سائنسز، خاص طور پر "Systems Theory”، میں فکری تربیت یا آگہی ناکافی ہوتی ہے۔ سوشل سائنسز ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انسانی معاشرے ایک مربوط نظام کی شکل رکھتے ہیں، جہاں مختلف شعبے (معاشی، سماجی، سیاسی، ثقافتی) ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر کسی ایک شعبے میں عدم توازن ہو، تو اُس کے اثرات پورے معاشرتی نظام پر پڑتے ہیں۔
آج کے دور میں "Systems Thinking” ایک تسلیم شدہ فریم ورک ہے، جو دنیا کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر نہیں، بل کہ ایک مربوط اکائی کے طور پر دیکھتا ہے۔ انسانی زندگی بھی ایک ایسا ہی نظام ہے، جس میں سیاست، معیشت، تعلیم، خاندان، ثقافت، ماحول اور روحانیت سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک پہلو کو نظر انداز کیا جائے، تو پورا نظام عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔
اسلام کی اصل عظمت یہی ہے کہ وہ انسان کو صرف ایک جز یا شعبے میں نہیں، بل کہ مجموعی طور پر ایک متوازن، بامقصد اور مربوط زندگی گزارنے کا نظام فراہم کرتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ دینِ اسلام صرف مراسم عبودیت کا مجموعہ نہیں، بل کہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے: اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّھِ الْإِسْلَامُ۔ یعنی اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
دین کا مطلب ہے، ایک ایسا نظام جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا معاشی، سیاسی ہو یا تہذیبی۔
اسلام میں اُصولی راہ نمائی موجود ہے، جیسے عدل، دیانت، شورا، امانت، صداقت اور خیر خواہی، جو کہ "Systems Thinking” کے مطابق کسی بھی پیچیدہ انسانی معاشرے کو متوازن رکھنے کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں اجتہاد اور عقلی استنباط کے ذریعے جدید دور کے مسائل کا حل ممکن ہے۔
عبادت بھی اسلام میں صرف نماز یا روزہ نہیں، بل کہ ایک ہمہ گیر تصور ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وما خلقت الجن والانس إلا لیعبدون۔ یعنی انسان کی پوری زندگی اللہ کی بندگی میں گزرنی چاہیے۔
بندگی کا مطلب ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی کے نظام…… یعنی تعلیم، صحت، معیشت، ماحول، انصاف، سب کچھ اللہ کی ہدایت کے مطابق چلائے۔ یہی ایک منظم دینی سوچ ہے، جو انسانی نظام کو ہم آہنگ کرتی ہے۔
فرقہ واریت یا اجتہادی اختلافات اس بات کا ثبوت نہیں کہ اسلام کوئی نظامِ زندگی نہیں دے سکتا، بل کہ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ نظامِ اسلام میں تنوع کی گنجایش ہے اور عقل و فہم کو بروئے کار لا کر نئے چیلنجز کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ اسلام وقت کے تقاضوں کے مطابق ارتقا کی اجازت دیتا ہے، بہ شرط یہ کہ اس کی جڑیں قرآن و سنت کے اُصولوں میں پیوست ہوں۔ "Systems Thinking” کے مطابق ایک کام یاب نظام وہی ہوتا ہے، جو اندرونی اُصولوں کو قائم رکھتے ہوئے بیرونی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔ اسلام اسی لچک اور استقامت کا حسین امتزاج ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں، بل کہ ایک مربوط اور ہمہ گیر نظام ہے، جو "Systems Thinking” کے اُصولوں کے عین مطابق انسان کی زندگی کے ہر شعبے کو ایک کُلی اِکائی کے طور پر دیکھتا ہے۔ دین کو صرف مراسمِ عبودیت یا روحانیت تک محدود کرنا، اس کے اصل مقصد اور فہم کو محدود کرنا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک متوازن، مربوط اور اُصولی زندگی کیسے گزاری جائے اور یہی ایک زندہ، مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا ثبوت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے