بہت پرانے حاجی بابا چوک کو چشمِ تصور میں لائیں، تو ایک عجیب سی تصویر بنتی ہے۔ ایک مصروف چوک جہاں سبزی منڈی، بسوں، گوالوں، پہاڑوں سے آئے ہوئے افراد جو میوہ جات کے ڈھیر سجائے بیٹھے ہیں، پرانا ڈاک خانہ روڈ سے کسی ندی کی طرح بہتی ہوئی اترائی جو غورئی کندہ کی جانب عمودی شکل میں جا رہی ہے۔ عین حاجی بابا چوک میں آدھی سڑک تک بچھی چارپائیاں، جس پر پورا دن لوگ بیٹھے گپیں مارتے، چائے پیتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔ صبح سے رات تک چارپائیوں پر لوگ بدلتے رہنے میں گفت گو اور بحثا بحثی جاری دکھائی دیتی ہے۔
یہاں کسی زمانے میں ’’طوطا گانو منڈی‘‘ تھی، جس میں طاطا گانو کی بسیں کھڑی رہتیں، جو مردان، مدین اور مختلف روٹس پر چلتیں۔ جب سردیوں میں بس سٹارٹ نہیں ہوتی تھی، تو حاجی بابا کی خطرناک اُترائی پر بس کو چھوڑا جاتا یا اس کے نیچے الاو جلا کر انجن گرم کیا جاتا۔
اس چوک کے پیچھے ڈوبڈنئی، چم اور میرخانخیل بوستان خیل کے علاقے تھے۔ چم کے نیچے واقع میدان کسی زمانے میں ’’ڈاگ‘‘ (کھلا میدان) کہلاتے تھے۔ آبادی چم اور اس کے اردگرد تھی۔ یہ مینگورہ شہر کا واحد چٹانی مقام تھا، جہاں سے پورا شہر نظر آتا تھا۔ یہاں سے آواز پرانے مین بازار میں دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ یہی چم شانہ بہ شانہ ڈوبڈنئی سے آگے بنجاریان اور تاج چوک تک مل رہا تھا ۔
اس میدان میں پہلا گھر بنا، جو باچا صاحب کے حکم پر تعمیر ہوا ۔ دریائے سوات سے عقیدت کے طور پر ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوکر یہاں دریائی پتھر پہنچا اور وسیع فصیل والا پہلا گھر تعمیر ہوا، جو قاضی غلام ربانی کا تھا۔ یہ مینگورہ ڈاگ میں پہلا گھر تھا، پہلا سیمنٹ کی فرشوں والا گھر۔ ڈاگ (میدان) میں آباد ہونے کی وجہ سے قاضی غلام ربانی ’’ڈاگ قاضی صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
قاضی غلام ربانی (مینگورہ قاضی صاحب یا ڈاگ قاضی صاحب) الازہر اور دیوبند سے فارغ التحصیل تھے، اُن کے چار فرزند محب الحق (مشر طوطا)، غلام حق (مینزنے طوطا، ’’مینزنے‘‘ پشتو کا لفظ ہے، جس کے معنی منجھلا کے ہیں)، مدرار (چورڑئی طوطا) اور عنایت الرحمان (کالج طوطا) تھے۔
محب الحق طوطا بڑی عالم فاضل شخصیت تھے۔ پشتو، فارسی اور عربی زبان و ادب پر عبور رکھتے تھے۔ اُنھیں مثنوی مولانائے روم تقریباً ازبر تھی۔ باچا صاحب، والی صاحب اور وزیرِ مال صاحب کی قریبی صحبت میں اُن کی زندگی گزری۔ اُنھوں نے دو شادیاں کی تھیں، مگر کوئی اولاد نہیں تھی۔ لمبے چوڑے، خوش شکل ، خوش گفتار اور خوش لباس انسان تھے۔
اُن کے بعد غلامِ حق طوطا تھے، جو بڑے نازوں سے پلے تھے۔ پشتو، اُردو اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ ریاستِ سوات کے اُن چند لوگوں میں شامل تھے، جن کے لیے باقاعدگی سے اُردو اخبار بلاناغہ ملتا، یہ الگ بات ہے کہ سفری سہولیات کم ہونے کی وجہ سے ایک دن تاخیر سے ملتا۔ خوب صورت، نفیس، خوش گفتار اور خوش اخلاق انسان تھے۔ امان اللہ خان ٹھیکے دار صاحب (جلو خیل)، باروز چاپ اور ملک سرائے میں طویل نشستیں ساتھ ہوتیں۔ گاڑی کا شوق تھا۔ باچا صاحب اور والی صاحب کے بعد پہلی ذاتی گاڑی خریدی، جو اُس وقت علی گرامہ کے خان کو کسی نے تحفے میں دی تھی اور دس ہزار روپے دے کر میاں خواجہ بہاؤ الدین بابا، میاں خواجہ دین بابا کے سامنے وسیع زمین فروخت کرکے خریدی۔
مدرار (چورڑئی طوطا) کو شروع سے کاروبار کا شوق تھا اور تعلیم کی طرف توجہ نہیں تھی۔ حاجی بابا چوک میں فرید ماما کی جائیداد تھی، وہاں طوطا گانو منڈی قائم کی، جو ایک طرح سے ٹرانسپورٹ آفس، کاروباری، سماجی، ثقافتی اور سیاسی مرکز بنی۔ میاں محمد ڈرائیور جیسے دیگر کئی لوگ وہاں بیٹھتے۔ پہلے مدین چورڑئی سروس شروع کی تھی۔ یہ ایک طرح سے ان کا بہت بڑا کام تھا۔ اس لیے چورڑئی مدین میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اسی مناسبت سے نام بھی ’’چورڑئی طوطا‘‘ پڑگیا۔
سوات کو نمک کی فراہمی بہ ذریعہ ملاکنڈ جو خطرناک سفر تھا، کا ٹھیکہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ سردیوں میں بارشوں اور گرمیوں میں سخت گرمی کی وجہ سے ایک دن میں سفر مکمل کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے مردان میاں صاحب کے سرائے میں آتے جاتے رات گزرتی۔
عنایت الرحمان طوطا نے ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔ پھر ریاست سوات نے آرکیالوجی میں ان کی علمی تشنگی بھجانے کے لیے اٹلی بجھوا دیا۔ واپسی میں سوات میں بدھ مت کے آثارِ قدیمہ کے دریافت کی بنیاد رکھی۔ سوات عجائب گھر قائم کیا۔ اٹلی اور جاپان سمیت دیگر ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے ساتھ مل کر اورا، بازیرہ، بت کدہ سمیت تقریباً تمام آثار دریافت کیے۔ کئی کتابیں تحریر کیں۔ بعد میں متحدہ ہندوستان کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں خدمات سر انجام دیں۔ ٹیکسلا، موہنجوداڑو، ہڑپہ، مشرقی پاکستان مارابار اور آخر میں لاہور قلعہ میں خدمات انجام دیں۔
کاروباری طور پر چورڑئی طوطا نے اپنے خاندان کی راہ نمائی کی، مگر چوں کہ خاندان کا مزاج کاروباری نہیں تھا، اس لیے طویل کوششوں کے بعد بھی باقاعدہ سنجیدگی سے کاروبار کی طرف توجہ نہ دی۔
مدرار طوطا آخری وقت تک کاروبار سے منسلک رہے۔ بعد میں اُنھوں نے بھی کاروبار چھوڑ کر باقی بھائیوں کی طرح حجرے اور یاروں کی محافل میں وقت گزاری شروع کردی۔ وقت گزرنے کے ساتھ منڈیاں حاجی بابا چوک سے منتقل ہوئیں۔ طوطا گانو نے منڈی بند کر دی۔ یوں حاجی بابا چوک ایک ویران اور غیر کاروباری چوک بن گیا اور اب آبادیوں کے بڑھنے سے اس میں کھڑے ہونے کو جگہ نہیں ملتی۔ ایک چوک جو ریاست میں آباد ہوا، ریاست کے بعد ویران ہوا اور اب ایک کارپوریٹ شہر کا بازار ہے، کبھی ادب، سماجی زندگی اور ثقافت کا مرکز تھا۔ اب وہ لوگ رہے، نہ وہ اطوار۔ رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
