پردیس کا مسافر، اپنے وطن میں لاوارث

Blogger Hilal Danish

سعودی عرب کا سورج جب سینے پر آگ برساتا ہے، قطر کی دھوپ جب ہڈیوں کو جلا دیتی ہے، دبئی کی بلند و بالا عمارات کے سائے جب مزدور کے خواب نگل لیتے ہیں، تب کہیں جاکر ایک تارکِ وطن اپنی جیب میں چند ریال یا درہم لے کر ’’امی‘‘، ’’ابو‘‘، ’’بھائی‘‘، ’’بہن‘‘، ’’بیوی‘‘ یا ’’بچوں‘‘ کے لیے پیسے بھیجتا ہے۔ اپنے آپ کو بھول کر، اپنوں کی آس میں، وہ برسوں ان ملکوں کی خاک چھانتا ہے، جن کی زبان، ثقافت اور زمین سب اجنبی ہوتا ہے۔ صرف اس امید پر کہ جب وہ واپس لوٹے گا، تو اُس کے لیے دروازے کھلے ہوں گے، بازو پھیلے ہوں گے، عزت، سکون اور اپنائیت اس کا استقبال کریں گے، مگر افسوس…… اکثر ایسا ہوتا نہیں!
مسافر بیرونِ ملک خون پسینا ایک کرتا ہے۔ سخت گرمی میں تعمیراتی جگہوں پر مزدوری کرتا ہے یا کارخانوں میں وقت کا پابند ہوتا ہے۔ اس کی کمائی گھر کے افراد مزے سے کھاتے ہیں۔ بھائی نئی گاڑیاں لیتے ہیں۔ بہنوں کے جہیز بنتے ہیں…… لیکن ایسے بھی بہت سے پردیسی ہیں جن کی کمائی یہاں موجود بھائی سیاست کے شوق میں جھونک دیتے ہیں۔ بینرز، جلوس، مٹھائیاں اور ووٹوں کی دوڑ میں وہ پسینا بہانے والے بھائی کا خون بہا دیتے ہیں اور ہر شخص امیرانہ چال چلنے لگتا ہے۔ مگر جس نے یہ سب ممکن بنایا، وہ یا تو دبئی کی کسی تنگ کوٹھڑی میں خالی دیواروں سے باتیں کرتا ہے یا سعودی عرب کے کسی ورک کیمپ میں بیٹھا ماں، بیوی اور بچوں کی یاد میں آنکھیں نم کرتا ہے۔
یہ سب صرف معاشی نابرابری نہیں، ایک نفسیاتی اور ازدواجی ظلم بھی ہے۔ بیوی، جس نے شوہر سے زندگی کا ساتھ مانگا تھا، اُسے تنہائی، عدم توجہی اور معاشرتی بے حسی ملتی ہے۔ ایسی خواتین اکثر ڈپریشن، عدمِ تحفظ اور جذباتی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہیں، اور اگر بچے ہوں، تو اُن کی پرورش ایک تنہا ماں کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہوتی۔
یہ صرف ایک جذباتی بات نہیں، ایک تلخ سچ ہے جو روزانہ کسی نہ کسی ’’پردیسی‘‘ کی زندگی کو نگل رہا ہے۔ ایک ایسا ہی معزز شخص، جس نے 33 سال سعودی عرب کے ایک آفس میں محنت کی، ہر ماہ تنخواہ سے کٹوتی کرکے وطن بھیجتا رہا۔ کبھی ماں کی دوائی کے لیے، کبھی بہن کی شادی کے لیے، کبھی بھائیوں کے کاروبار اور زمین کے لیے۔ اُس نے سوچا، کل کو جب واپس جاؤں گا، تو یہ سب کچھ میری ریٹائرمنٹ کا سہارا ہوگا۔
مگر جب وہ پلٹا، تو نہ زمین اُس کی تھی، نہ کاروبار اور نہ سرمایہ۔ ہر ایک اپنے پاس رکھی امانت ہڑپ کر چکا تھا اور کسی کو لگتا بھی نہ تھا کہ ہم نے کوئی گناہ کیا ہے۔ اب وہ ایک اجنبی شہر میں ایک چھوٹی سی نجی نوکری پر ہے۔ تعلیم، علاج، گھر کا خرچہ…… سب کچھ اس کے بس سے باہر ہے۔ وہ جو 33 سال وطن سے باہر مسافر تھا، اب وطن میں بھی اجنبی بن چکا ہے۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ راولپنڈی میں پیش آیا۔ قطر میں مزدوری کرنے والے ایک فرد نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے چار کمروں پر مشتمل ایک گھر خریدا۔ دو کمروں پر بھائیوں نے قبضہ جما رکھا ہے، ایک کمرے میں بوڑھی ماں ہیں، اور جب وہ شخص اپنے بیٹے کی شادی کے لیے اپنے ہی گھر واپس آنا چاہتا ہے، تو بھائی کہتے ہیں: ’’ہم کرایہ افورڈ نہیں کرسکتے، آپ بیرونِ ملک ہیں، آپ کرائے پر رہ سکتے ہیں!‘‘
یہ کیسی بے حسی ہے، کیسا سفاک مذاق ہے؟ ایک شخص جس نے چھت دی، آج خود اُس چھت کے نیچے جگہ کا سوالی بن چکا ہے۔
کیا ان بھائیوں، ان والدین، ان عزیزوں سے قیامت کے دن سوال نہیں ہوگا؟ اگر ہوگا، تو پھر یہ ظلم کیوں؟ کیا محبت کا یہ انداز ہے کہ جس نے اپنی زندگی تیاگ دی، اُسے آخر میں بے دخل کر دیا جائے؟
ایسی کہانیاں کوئی ایک یا دو نہیں، ہزاروں ہیں۔ خلیج کے ہر ملک سے، یورپ کی گلیوں سے، امریکہ اور کینیڈا کی راتوں سے ایسے لوگ پلٹ رہے ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کی۔ جب وہ واپس آتے ہیں، تو اکثر بیمار ہوتے ہیں…… بلڈ پریشر، شوگر، دل کی بیماریاں، ڈپریشن…… اور سب سے بڑی بیماری:’’بے قدری……!‘‘
اسلام نے میاں بیوی کے رشتے کو محبت، سکون اور ساتھ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا وہ مشہور واقعہ ہمارے لیے ایک سبق ہے، جب ایک عورت کے شوہر کی جدائی کا نوحہ سن کر اُنھوں نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ سے پوچھا کہ عورت شوہر کی جدائی کتنے عرصے تک برداشت کرسکتی ہے؟ جواب آیا: ’’چار ماہ۔‘‘ چناں چہ حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ کوئی بھی سپاہی چار ماہ سے زیادہ محاذ پر نہ رہے، مگر افسوس کہ آج ہم نے دین کی اس حکمت کو نظر انداز کر دیا ہے، اور رشتوں کو صرف معاشی فائدے کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا ہے۔
2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق، 7 لاکھ سے زائد پاکستانی بیرونِ ملک روزگار کی تلاش میں گئے، جن میں بیش تر شادی شدہ نوجوان ہیں۔ اُن کی قربانیوں سے وطن میں کئی گھروں کی حالت بہتر ہوئی، مگر وہ خود جذباتی طور پر کھوکھلے ہوگئے۔ یہ تنہائی صرف جسمانی نہیں، بل کہ ذہنی، روحانی اور جذباتی سطح پر انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ وہ نہ کسی کے دکھ میں شریک ہو سکتا ہے، نہ خوشی میں، نہ بچوں کی پہلی بات سن پاتا ہے، نہ اُن کی کام یابی پر اُن کے سر پر ہاتھ پھیر سکتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ سب کب تک؟ کیا ہم صرف اُن کی کمائی کے محتاج ہیں یا اُن کے جذبات، احساسات اور قربانیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے؟ کیا والدین، بہن بھائی اور رشتے دار صرف لینے کے لیے ہوتے ہیں؟ کیا قیامت کے دن اُن قربانیوں کا حساب نہ ہوگا؟ کیا کسی کا حق کھانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا ضمیر ہمیشہ خاموش رہے گا؟
دوسری طرف، وہ پردیسی بھی سوچے کہ کیا اُس نے اپنی زندگی کو صرف دوسروں کے لیے قربان کرنا ہی سیکھا؟ اُس نے اپنے کے لیے کیا کیا، اپنے بچوں کے لیے کیا محفوظ کیا؟ اُس نے کبھی یہ سوچا کہ رشتہ دار بدل بھی سکتے ہیں، مگر وقت اور صحت دوبارہ نہیں آتی؟
ہمارے معاشرے میں ایک خاموش ظلم پنپ رہا ہے: بیرونِ ملک جانے والے افراد کی جذباتی، مالی اور نفسیاتی لوٹ مار۔ اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کہانیوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کل کو اور لوگ بھی اسی انجام کو پہنچیں گے …… اپنے گھر میں اجنبی، اپنے پیسوں سے محروم، اپنے رشتوں سے ٹوٹے ہوئے۔
یہ کالم ان تمام پردیسیوں کے نام، جنھوں نے اپنا سکون دوسروں کی آسایش پر قربان کر دیا۔ اَب وقت ہے کہ ہم اُن کا ہاتھ تھامیں، اُن کی کہانی سنیں اور اُن کے ساتھ انصاف کریں۔ کم از کم اتنا تو کریں کہ وہ اپنے وطن میں پردیسی نہ بنیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے