یہ تحریر میری انگلیاں نہیں، میرا دل لکھ رہا ہے……!
لیکن سچ یہ ہے کہ قلم میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ ہاتھ کانپتے ہیں، آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور الفاظ بکھر جاتے ہیں۔ کئی ہفتوں کی سعیِ لاحاصل کے بعد جب بھی کاغذ اُٹھایا، جذبات کی موجیں تحریر کے ساحل کو بہا لے گئیں۔ ایک آدھ پیرا لکھا، پھر آنسوؤں کی نمی میں ڈوب کر مٹا دیا۔ یہ کیفیت آج سے پہلے صرف ایک بار تصدیق اقبال بابو (مرحوم) پر لکھتے ہوئے طاری ہوئی تھی۔ آج جب والدِ گرامی کی یادیں لفظوں میں سمیٹنے بیٹھا ہوں، دل کی دنیا لرز رہی ہے اور قلم کا ہر حرف اشک بن کر گرنے کو ہے۔
ایسی ہستی کے بارے میں قلم اٹھانا کیسا دشوار ہے، جو میری زندگی بھر کی ہم سفر دعاؤں کا سائبان، دل کا سکون، روح کی راحت اور میرے وجود کا مان تھیں۔ وہ جو میرے رفیق بھی تھے، مربی بھی اور سراپا شفقت بھی۔ جن کی دعاؤں میں، مَیں پلتا رہا، جن کی محبت میں، مَیں سنورتا رہا۔ آج ہمت باندھ کر اُن کی سوانح حیات قلم بند کر رہا ہوں۔ اس اُمید کے ساتھ کہ شاید یہ چند سطور میرے والدِ محترم کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائیں اور اُن کی یادوں کو تروتازہ رکھنے کا ذریعہ بنیں۔
یادِ رفتہ کی مہک باقی ہے دل کے آس پاس
جیسے سایہ ساتھ چلتا ہے دعاؤں کے لباس
٭ نسبتِ علم و تقوا کا سرچشمہ:۔ میرے والدِ محترم ڈاکٹر محمد احمد، جنھیں ساری دنیا مفتی صاحب کے نام سے یاد کرتی ہے، 1950ء میں چارباغ، سوات کے علمی اور روحانی خانوادے زندوال خیل ملایان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار، قاضی اور عالمِ ربانی مولانا خونہ گل بن مولانا عبد الحنان رحمہ اللہ، خطے میں علم و فقہ اور دین کے چراغ روشن کرنے والی شخصیت تھے۔ گویا آپ کا خاندانی شجرہ علم و عمل اور تقوا و طہارت کی جڑوں سے سینچا ہوا تھا۔
والد صاحب نے ابتدائی نورِ قرآن اپنے والدِ ماجد کی آغوشِ علم میں حاصل کیا۔ علم کی روشنی نے بچپن ہی سے اُن کی پیشانی پر چمکنا شروع کیا۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے بعد ہائی اسکول میں قدم رکھا اور امتیازی نمبروں سے کام یابی حاصل کی۔
٭ علم و عرفان کا ذوق:۔ والد صاحب نے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی عظیم کتابیں نہایت انہماک سے پڑھیں۔ ’’شرحِ جامی‘‘، ’’اُصولِ شاشی‘‘، ’’نقولِ اکبری‘‘، ’’نور الانوار‘‘، ’’تلخیص‘‘، ’’شرحِ وقایہ‘‘، ’’بدیع‘‘ اور ’’میزانِ قطبی‘‘ جیسی کتب آپ کے علمی سفر کی سنگِ میل ثابت ہوئیں۔ پھر آپ نے جہانزیب کالج سے ایف ایس سی مکمل کیا اور عملی میدان میں قدم رکھا۔
٭ خدمتِ خلق کا درخشندہ باب:۔ بہ طور ملیریا سپروائزر سوات میں پہلی تقرری ہوئی، لیکن جلد ہی استعفا دے دیا۔ اس کے بعد پیر بابا بونیر میں ڈسپنسر تعینات ہوئے۔ بعد ازاں سیدو شریف گروپ آف ہسپتال میں اسٹور انچارج اور پرائیویٹ وارڈ انچارج کے طور پر ذمے داریاں سنبھالیں۔ اسی دوران میں والئی سوات کے حکم پر سنٹرل ہسپتال میں مسجد تعمیر ہوئی، جس کا افتتاح آپ کی امامت میں ہوا۔
والد (مرحوم) کی وجاہت، نورانی چہرہ، پُرسوز آواز اور اندازِ تلاوت، معروف عالم ’’مفتی محمود رحمہ اللہ‘‘ سے مشابہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر نجیب صاحب (سینئر) اور ڈاکٹر روشن ہلال نے محبت سے اُن کو ’’مفتی صاحب‘‘ کہنا شروع کیا اور پھر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں یہی نام اُن کی پہچان بن گیا۔
سروس کے دوران میں اُنھوں نے میڈیکل ٹیکنالوجسٹ اور فارمیسی کیٹیگری بی کے امتحانات کام یابی سے مکمل کیے ۔ تقریباً 17 برس سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں خدمات انجام دینے کے بعد بی ایچ یو چارباغ، گلی باغ اور کوٹنئی میں بہ حیثیت معالج خدمات انجام دیں۔
٭ مسیحائی کی بے مثال داستان:۔ اللہ تعالیٰ نے والد (مرحوم) کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ بڑے سے بڑا مریض جب اُن کے زیرِ علاج آتا، تو چند ہی دنوں میں اِفاقہ پاتا۔ نہ دن کی پروا، نہ رات کی تھکن، نہ بارش کی رکاوٹ، نہ دھوپ کی شدت۔ برکات خان (کینیڈا) اکثر محبت و عقیدت سے فرمایا کرتے تھے: ’’ہمیں ہمیشہ یوں محسوس ہوتا، جیسے مفتی صاحب حکومت کی جانب سے ہمارے علاج پر مامور کوئی مخصوص معالج ہوں۔ کیوں کہ ہم نے نہ کبھی اُن کے ہاتھوں میں رقم رکھی اور نہ اُنھوں نے کبھی اس کا اشارہ تک ہی دیا۔‘‘
اُن کی باتوں میں صرف ذاتی تجربے کی شیرینی نہ تھی، بل کہ ایک ہمہ گیر سچائی جھلکتی تھی۔ برکات خان مزید کہا کرتے تھے کہ ابتدا میں تو ہمیں یہی گمان ہوتا کہ مفتی صاحب کا یہ بے مثال تعلق اور شفقت صرف ہمارے خاندان تک محدود ہے، مگر وقت کے ساتھ یہ راز کھلا کہ چارباغ کی ہر گلی، ہر بستی اور ہر گھرانے کے ساتھ ُان کا رشتہ اسی درجہ گہرا، بے لوث اور مخلص تھا۔ گویا وہ ہر دل کے طبیب اور ہر گھر کے مسیحا تھے۔ اللہ نے اُن کے ہاتھ میں عجب شفا رکھی تھی؛ ایسی شفا کہ پیچ در پیچ امراض اور اُلجھی ہوئی بیماریوں کا بآسانی علاج ہوجاتا۔ اُن کا معائنہ صرف دوا نہیں، دعا بھی تھا اور اُن کا لمس صرف علاج نہیں، اطمینانِ قلب بھی عطا کرتا تھا۔ وہ علم، محبت، خدمت اور خلوص کا ایسا سنگم تھے، جو بستی کی بستی اور نسل در نسل یاد رکھا جائے گا۔
٭ عبادت و دعوت کا سفر:۔ 1992ء میں پہلی مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی اور 1999ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کے بقیہ ایام کو دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کر دیا۔ 2001ء میں چار ماہ کا اندرونِ ملک سفر، پھر عمرہ، پھر متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں سات سات ماہ کے تبلیغی اسفار کیے۔ 2012ء میں دوسری مرتبہ حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ 2014ء میں پھر عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ علم کا ذوق کبھی مدھم نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آخری عمر میں مظہر العلوم مینگورہ میں دورۂ حدیث کا داخلہ لیا اور 2016ء میں دستاربندی ہوئی۔
٭ آزمایش کا دور اور روحانی استقامت:۔ اسی دوران میں بلڈ پریشر، شوگر اور قلب کی بیماریوں نے آپ کو گھیرا۔ اوپن ہارٹ سرجری ہوئی، لیکن تبلیغی شوق کم نہ ہوا۔ البتہ صحت کی کم زوری نے عملی مصروفیات محدود کر دیں۔ 2017ء میں آپ نے آخری عمرہ ادا کیا۔
٭ وقفِ مسجد اور صدقۂ جاریہ:۔ والد (مرحوم) نے اپنی ذاتی زمین وقف کرکے مسجد کی بنیاد رکھی اور تاحیات اپنی پنشن سے اس مسجد کے اخراجات برداشت کیے۔ متعدد مساجد میں بورنگ اور تعمیر کے منصوبوں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
٭ وصال اور رخصتی:۔ 24 اور 25 جنوری 2023ء کی درمیانی شب، قلبی عارضے کے سبب داعیِ اجل کو لبیک کہا اور منگلتان چارباغ کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ آپ نے دو بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔ ایک فرزند مولانا قاری مختار احمد، آپ کی حیات ہی میں وفات پا گئے۔
مَیں (ہلال دانش) آپ کا بڑا بیٹا، اپنے کلینک میں خدمات انجام دے رہا ہوں، جب کہ بھائی ڈاکٹر اَسرار احمد صاحب ٹی ایم اے مینگورہ میں ٹی اُو آر کی ذمے داری ادا کر رہے ہیں۔
٭ والدِ محترم کا عکسِ زندگی:۔ آپ کی زندگی کا ہر باب ایثار، تقوا، علم اور خدمت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کی تلاوت کی مٹھاس، گفتار کی شایستگی، چہرے کی نورانیت اور دل کی وسعت ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے میں گواہ ہوں کہ قلم بار بار رُک گیا، آنکھیں بار بار نم ہوئیں اور دل بار بار لرز اُٹھا، مگر مَیں نے چاہا کہ الفاظ کی یہ لڑیاں صرف واقعات نہ ہوں، بل کہ عقیدت کی مالا بن جائیں، جو والدِ محترم کی قبر کو نور عطا کریں اور میرے دل کو قرار بخشیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں بدل دے، درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو آپ کی نیک راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
