ریاست میں ہم نے پروٹوکول کی ایک ہی صورت دیکھی ہے۔ یہ ایک سرکاری شائع شدہ سرکلر ہوا کرتا تھا، جس کا عنوان ’’ترتیب وار افسرانِ ریاستِ سوات‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اس فہرست میں بہ لحاظِ عہدہ و مرتبہ ہر محکمہ کے عہدے داران درج تھے، لیکن عملی طور پر مَیں نے کبھی نہیں سنا کہ کسی افسر کو ’’جناب‘‘ یا ’’سر‘‘ کَہ کر گفت گو کی جاتی ہو۔ درخواست میں بھی سب کے لیے تحریری طور پر ’’جناب‘‘ ہی لکھا جاتا تھا۔ صرف والیِ سوات کے نام درخواست میں ’’حضور والی صاحب‘‘ کے الفاظ لکھے جاتے تھے۔
پشتو سے پہلے جب فارسی بہ طور سرکاری زبان استعمال ہوتی تھی، تو لمبے چوڑے القابات لکھے جاتے تھے۔مثلاً: ’’از پیش گاہ امام المسلمین امیرالمؤمنین حضور بادشاہ صاحب دام القابہ۔‘‘ مگر والی صاحب نے یہ تمام القابات سختی سے منع کیے تھے۔اپنے فرامین کے لیے ایک ہی عنوان منتخب اور استعمال کیا: ’’دا زما حکم دے!‘‘
رواج نامہ سوات میں ان القابات کے بارے میں بھی واضح حکم درج ہے۔ اُن سے دفتری اُمور پر گفت گو کے دوران میں، مَیں نے اپنے افسر کو صرف سادہ طرزِ تخاطب اختیار کرکے دیکھا ہے۔عام سماعت کے دوران میں بھی لوگ اپنی مدعا روانی اور بغیر ہچکچاہٹ کے بیان کرتے تھے۔ کسی نے اُن کو ’’حضور‘‘ کَہ کر مخاطب کرتے ہوئے نہ دیکھا نہ سنا۔
ادغام کے بعد ہمارے کئی ’’حضور‘‘ بن گئے۔ ہمیں تو پتا نہیں تھا کہ ’’ایکسین‘‘ سے بات کرتے ہوئے ہم اُن کو ’’سر‘‘ (Sir) کَہ کر بات کریں گے۔ سارا دن دفتر میں اور فیلڈ میں ’’سر، سر‘‘ کرتے پھرتے۔ ہمارے بعض ’’کولیگ‘‘ تو ایس ڈی اُو کو بھی ’’سر‘‘ کہتے۔ خاص کر وہ سٹاف جو غیر سواتی تھا، مگر ہمارے جو سوات سے تعلق رکھنے والے افسر تھے، وہ ’’سر‘‘ کہنے پر ہم سے ناراض ہوتے۔کہتے: ’’یارا، وہ پہلی ’ابے، تبے‘ والی گفت گو کرو، تاکہ ہم کو اجنبیت کا احساس نہ ہو۔‘‘
ٹھیک ہے بھائی، ادب اور تمیز اور حفظِ مراتب اپنی جگہ…… مگر اس طرح زبردستی احترام ٹھونسنا کہاں کی انسانیت ہے……!
اگر آپ کسی اُستاد کو، کسی پروفیسر کو ’’سر‘‘ کَہ کر مخاطب کریں، تو یہ بہت احسن بات ہے۔ مگرکسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو ’’سر‘‘ کہنا جچنے والی بات نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
