تبصرہ: یوسف عزیز زاہد
21ویں صدی کے 26ویں سال میں جب کہ مائیکرو فکشن مقبولِ عام ہو رہا ہے، ناول لکھنا اور ناول پڑھنا دونوں دقت طلب کام ہیں، لیکن جن لوگوں کو کتاب سے عشق ہے، وہ ناول بھی اُتنی ہی دل چسپی اور انہماک سے پڑھتے ہیں، جتنی دل چسپی سے مائیکرو فکشن پڑھتے ہیں۔
ناول کوئی بھی ہو، ایک نشست میں پڑھنا لمحۂ موجود میں ممکن نہیں رہا۔ ’’زندہ مایوسیاں‘‘ جب موصول ہوئی، تو مَیں چھوٹے بھائی کی بیماری اور خود اپنی علالت کے باعث مطالعے کو بہت کم وقت دے رہا تھا، لیکن جیسا کہ ہر شخص کے اندر ایک تڑپ ہوتی ہے کہ کوئی نئی کتاب کے ہاتھ آتے ہی دو چار اوراق پڑھ کر پرکھا جائے کہ کتاب کتنی دل چسپ ہے، یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا ۔ اگرچہ ’’زندہ مایوسیاں‘‘ طبع زاد ناول نہیں، لیکن اس کے نام اور پہلے باب نے مجھے جکڑلیا اور کتاب ملنے کے ایک گھنٹے بعد میں اس ناول کے تین باب پڑھ چکا تھا۔ اوریجنل ناول جو میٹ ہیگ کا لکھا ہوا ہے، مَیں نے نہیں پڑھا، لیکن جس احسن طریقے سے محترمہ عقیلہ منصور جدون نے اس ناول کا ترجمہ کر کے اُردو زبان کے ذائقے سے آشنا کیا۔ وہ قاری کو ایک لمحہ بھی ناول سے الگ ہونے نہیں دیتا۔ پھر اِس ناول کی بڑی خوبی ہر باب کا عنوان ہے، اور ناول کا ہر باب اپنی جگہ ایک الگ افسانہ بھی ہے۔ یہ بات مَیں نے محسوس کی ہے، ہو سکتا ہے کہ دوسرے قارئین میری اس بات سے اتفاق نہ کریں، مگر میں جن پریشانیوں میں گھرا ہوا تھا اور جو وقت میں اس ناول کے مطالعے کے لیے نکال سکتا تھا، اُس دوران مجھے محسوس ہوا کہ ہر باب میں ایک افسانہ پوشیدہ ہے۔ پھر 4 اپریل کی صبح فجر کی نماز کی ادائی کے بعد ابھی کلامِ الٰہی کے ساتویں پارے کی تلاوت کا آغاز کیا ہی تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر بھتیجے کا نام بلنک کر رہا تھا۔ فون سنے بغیر ہی اندازہ ہوگیا کہ کیا حادثہ پیش آ چکا ہے۔ بھائی، فجر کی اذان سن کر ابدی نیند سوچکا تھا اور مَیں اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا،لیکن شاید آپ یقین نہ کریں کہ مَیں شام سے پہلے گھر آگیا اور عشا کے بعد فراغت ملی، تو سرہانے رکھی ’’زندہ مایوسیاں‘‘ مجھ سے سرگوشیاں کرنے لگیں۔ اُداسی اور مایوسی کے اس سنگم پر مجھے اس ناول نے دو گھنٹوں تک اپنی آغوش میں تھپکیاں دیں۔ تسلسل برقرار رکھنے کے لیے مجھے شروع کے ابواب دوبارہ پڑھنے پڑے اور اچھا ہی ہوا کہ اس دوران میں، مَیں اپنا غم بھلا بیٹھا۔ پھر نہ جانے کس وقت نیند نے غلبہ پایا اور مَیں نورا سیڈ کے پھٹے پرانے صوفے پر ’’زندہ مایوسیاں‘‘ کی آغوش میں سویا رہا۔ دوسرا دن بھی عزیز و اقارب، دوست احباب کا پُرسہ حاوی رہا، لیکن اپنے دکھ کے ساتھ ساتھ نورا سیڈ کا دکھ بھی مجھے تڑپا رہا تھا۔ اس لیے شام سے پہلے ہی گھر آگیا۔شام اور عشا کی نمازوں کے وقفے میں 16ویں باب کا مطالعہ ایک عجیب سی کیفیت سے دو چار کرگیا۔
قارئین! آپ یقین کریں یا نہ کریں مجھے یہ باب جو بہ مشکل 8 سطور پر مشتمل ہے، پڑھنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ یوں کہوں کہ اس مائیکرو فکشن کو سمجھنے اور اپنے اندر اُتارنے میں وقت لگا، تو یہی سچ بات ہے۔ ’’ہر موڑ مڑنے والے آپ خود ہیں‘‘، یہ جملہ بار بار مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ہاں! باہر جانے کے بہت سے رستے ہوتے ہیں، لیکن جب آنکھیں چھلک رہی ہوں، تو رستے دھندلا جاتے ہیں۔ یہ اپنے آپ سے ناراض ہونا بھی عجیب تماشا ہے کہ پھر کوئی منانے والا بھی نہیں ہوتا۔
عشا پڑھ کر ایک بار پھر ’’زندہ مایوسیاں‘‘ مجھے پکارنے لگیں۔ خود کو شطرنج کی بساط کا ایک مہرہ تسلیم کرتے ہوئے لائبریری کے اس کمرے تک پہنچا، جو اپنی حدود کھو بیٹھا تھا۔مسز ایلم شطرنج کے مہروں کو قدم قدم آگے بڑھا رہی تھی اور میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ نورا خود کشی سے پہلے شطرنج کی بساط پر بازی پلٹ دے گی، یا خود نورا سیڈ کو شہ مات ہوجائے گی؟ کیا کوئی اپنے مرنے کا دکھ محسوس کرسکتا ہے؟
دُکھ تو یہ ہے کہ جو پل بھر میں منوں مٹی کے نیچے ابدی نیند سو جاتا ہے، وہ اپنا دُکھ بھی بیان نہیں کرسکتا۔ کوئی اپنا بچھڑ جائے، تو کتنا دُکھ ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ تو نورا سیڈ کو بھی تھا، لیکن وہ خود اپنی زندگی کو مکمل تباہی سمجھ کر مرنا چاہتی تھی۔ اور اس کرب کو بیان کرنا بھی چاہتی تھی، جو زندگی اسے سونپ رہی تھی۔ مَیں اس مرحلے پر ایک بات کہنا چاہوں گا کہ اگر اس باب میں مسز ایلم اور نورا سیڈ کے ناموں کی بھائے بیگم علیم اور نور النساء کے نام لکھ دیے جائیں، تو آپ محسوس کریں گے کہ عقیلہ منصور جدون نے کوئی افسانہ تخلیق کیا ہے۔ مَیں پھر اس بات کو دہراتا ہوں کہ اوریجنل ناول مَیں نے نہیں پڑھا۔ مجھے نہیں معلوم جس زبان میں ناول لکھا گیا، اُس میں روز مرہ اور محاورہ، الفاظ کی نشست و برخاست کیا ہے، لیکن شطرنج کی اس بساط پر عقیلہ جدون کھل کر کھیلی ہیں۔
اس باب کی آخری سطور میں نورا زندگی کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ علم کا حصول، اساتذہ کی صحبت،کتاب میں محبت اور مشاہدے کی گہرائی کا متقاضی ہے، لیکن سیکھنے کے لیے جینا بھی لازمی ہے۔ زندگی اور موت ہمارے ہاتھ میں نہیں۔کسی حد تک ہم زندگی کو برت لینے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں، لیکن موت سے بچنا مشکل نہیں ناممکن بھی ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اس ناول میں مصنف نے کرداروں کے اندر اُتر کر ان کی داخلی کیفیات کو جس خوبی سے اجاگر کیا ہے، اتنی ہی عرق ریزی سے عقیلہ منصور نے اس ناول کو پڑھا، سمجھا اور کرداروں کی نفسیات اور کیفیات کو اپنے اندر اُتار کر جس خوب صورتی سے ترجمہ کیا، وہ ستایش کے لائق ہے۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی فٹ نوٹ میں وضاحت بھی کر دی اور بعض اصلاحات کو آسان لفظوں میں سمجھا بھی دیا۔ جب شطرنج کی بساط پر اکلوتا بادشاہ رہ جائے، تو شاہ مات یقینی ہوتی ہے، لیکن کبھی کبھی ایک پیادہ بھی بادشاہ کا دفاع کرتا ہے۔شطرنج کا کھیل ختم ہو کر بھی ختم نہ ہو، تو بساط اُلٹ دی جاتی ہے۔ یہی اس کھیل کی خوب صورتی بھی ہے اور بد صورتی بھی۔ لیکن اس کھیل کی چالوں کو سمجھنے کے لیے ’’زندہ مایوسیاں‘‘ کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ہو گا۔ کہیں کہیں آپ کو لوٹ کر بھی جانا ہوگا کہ اس ناول کا اَسرار آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ پڑھے ہوئے ابواب کو ایک بار نہیں کئی بار پڑھا جائے۔ اگر آپ شطرنج کے کھیل سے آشنا ہیں، تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگرچہ اسپ ڈھائی چال چل سکتا ہے، مگر اس چال کو چلنے میں بعض اوقات جب ماہر کھلاڑی آمنے سامنے ہوں (جیسے نورا سیڈ اور مسز ایلم) تو موت بھی اس کھیل کو ختم کرنے سے کنی کترا کے گزر جاتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
