آج کے دور میں تعلیم کے مقاصد بدلتے جا رہے ہیں۔ طلبہ کے ذہنوں میں علم حاصل کرنے کی بہ جائے صرف امتحان پاس کرنے، نمبر لینے اور اچھی نوکری حاصل کرنے کی سوچ بیٹھ چکی ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا رہ گیا ہے، جب کہ اخلاقی اقدار جیسا کہ سچائی، دیانت داری، صبر، احترام، برداشت اور خلوص پس منظر میں جاچکے ہیں۔
آج کل کے طلبہ بچپن ہی سے ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، جہاں مادہ پرستی کا غلبہ ہے۔ گھریلو ماحول ہو یا تعلیمی ادارے، ہر جگہ مقابلہ بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ ہے۔ طلبہ کو سکھایا نہیں جاتا کہ ایک اچھا انسان بننا زیادہ اہم ہے، بل کہ اُنھیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ جیتنا ہی سب کچھ ہے، چاہے اس کے لیے دھوکا دہی یا غلط طریقہ اختیار کیا جائے۔
آج کی دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان اور سہل بنا دیا ہے۔ تعلیم کے ذرائع بڑھ گئے ہیں، معلومات چند لمحوں میں دست یاب ہوجاتی ہیں، مگر اس تیزی نے انسان کی روحانی و اخلاقی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خاص طور پر ہمارے طلبہ، جو مستقبل کے معمار ہیں، وہ ظاہری چمک دمک میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ اُنھیں اخلاقیات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں رہا۔
ہم جب ماضی کے طلبہ کو دیکھتے ہیں، تو وہ نہ صرف تعلیم میں نمایاں تھے، بل کہ اخلاقی اقدار میں بھی مثال ہوا کرتے تھے۔ ان کے اندر بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، وقت کی پابندی، سچائی، ایمان داری اور قربانی جیسے اوصاف پائے جاتے تھے۔ وہ اُستاد کو روحانی باپ مانتے تھے، اور اُن کی بات کو حرفِ آخر سمجھتے تھے۔ اُن کے لیے علم صرف کتابی معلومات نہیں تھا، بل کہ ایک راستہ تھا، جو اُنھیں بہتر انسان بننے کی طرف لے جاتا تھا۔
مگر آج کے طلبہ کا رویہ مختلف ہے۔ وہ اساتذہ کے ساتھ بحث کرتے ہیں، بعض اوقات بدتمیزی پر اتر آتے ہیں، اُن کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ کلاس میں موبائل فون کا استعمال عام ہوچکا ہے اور علم حاصل کرنے کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ جو طالب علم اپنے اُستاد کے ادب میں کھڑا ہو کر سلام کرے، اُسے پرانا یا دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔
والدین کا کردار بھی اس گراوٹ میں اہم ہے۔ آج کل والدین بچوں کو مہنگے موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر سہولیات تو دیتے ہیں، مگر ان کی تربیت پر دھیان نہیں دیتے۔ بچوں کو یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ کسی کی بات کیسے سنی جاتی ہے؟ بڑوں سے کیسا برتاو کیا جاتا ہے، یا حق اور باطل میں فرق کیسے کیا جاتا ہے؟ جب گھر میں یہ اقدار نہ ہوں، تو تعلیمی ادارے بھی اکیلے کچھ نہیں کرسکتے۔
سوشل میڈیا نے ایک الگ ہی دنیا پیدا کر دی ہے۔ طلبہ اپنا زیادہ تر وقت انسٹاگرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارموں پر گزارتے ہیں۔ وہاں جو کچھ دیکھتے ہیں، وہی اُن کے ذہن پر چھا جاتا ہے۔ بدتمیزی، جھوٹ، دکھاوا اور شارٹ کٹ کے ذریعے کام یابی حاصل کرنے کو وہ کام یابی سمجھنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً اُن کے کردار میں سنجیدگی، بردباری اور عاجزی کی جگہ خود پسندی، جلد بازی اور مغرورانہ رویہ آ جاتا ہے ۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ طلبہ کے آئیڈیل بدل گئے ہیں۔ پہلے لوگ علامہ اقبال، قائداعظم، سرسید احمد خان یا مدر ٹریسا جیسے لوگوں کو آئیڈیل مانتے تھے۔ آج کل فلمی اداکار، یوٹیوبروں یا فیشن ماڈلوں کو آئیڈیل مانا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد تفریح ہے، جب کہ قوموں کی تعمیر تفریح سے نہیں، کردار سے ہوتی ہے۔
اخلاقیات صرف مذہبی تعلیمات نہیں، بل کہ ہر کام یاب معاشرے کی بنیاد ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں جائیں، وہاں ایمان داری، صفائی، قانون کی پابندی، وقت کی قدر اور احترام جیسے اُصولوں کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ جب ہم اپنے معاشرے میں ان چیزوں کی کمی دیکھتے ہیں، تو اس کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہماری نئی نسل کو ان باتوں کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔
حل کا راستہ موجود ہے، مگر اس کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو صرف نمبرات اور رٹنے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بل کہ ایسے مضامین اور سرگرمیوں کو شامل کرنا چاہیے، جو طلبہ کو اخلاقی طور پر مضبوط بنائیں۔ اساتذہ کو صرف لیکچر دینے والا نہیں، بل کہ کردار کا نمونہ ہونا چاہیے۔ والدین کو اپنی روزمرہ زندگی میں سچائی، دیانت داری اور شرافت کا مظاہرہ کرکے بچوں کے لیے عملی مثال قائم کرنی چاہیے۔
سب سے بڑھ کر، ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے رویوں پر نظر ڈالنی ہو گی۔ جب تک ہم خود اخلاقی طور پر بہتر نہیں ہوں گے، تو ہم اپنے بچوں یا طلبہ کو کچھ نہیں سکھا سکیں گے۔
اگر ہم نے اس طرف توجہ نہ دی، تو ہم ایک ایسی نسل تیار کریں گے، جو بہ ظاہر ترقی یافتہ، مگر اندر سے کھوکھلی اور بے مقصد ہوگی۔ وہ صرف اپنی کام یابی، پیسا اور شہرت کے پیچھے بھاگے گی اور سچ، دیانت، خلوص اور قربانی جیسے الفاظ اسے اجنبی محسوس ہوں گے۔
یہ وقت ہے جاگنے کا۔ اپنے طلبہ کو صرف تعلیمی لحاظ سے نہیں، بل کہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط بنانے کا۔ تبھی ہم ایک ایسی نسل تیار کرسکیں گے، جو نہ صرف خود کام یاب ہو، بل کہ اپنی قوم کے لیے باعثِ فخر بھی بنے۔
ادب نہیں، تو سنگ و خشت ہیں تمام ڈگریاں
جو حُسن خلق ہی نہیں، تو سب کمال مسترد
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
