ہم 21ویں صدی میں بنیادی سہولیات جیسے سڑک، پل ، پانی کے نلکوں، اسپتالوں اور اسکولوں سے محروم لوگ ہیں۔ پورے ملک کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے اور ہم مضافاتی لوگوں کی تو حالت نہایت پسم ماندہ ہے۔ باقی دنیا میں سائنس، ٹیکنالوجی، چاند اور مریخ پر جانا، صنفی مساوات وغیرہ بڑے مسائل ہیں، جب کہ ہم اُسی طرح اپنی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔ ان سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ہمیں دھوکا بھی دیا جاسکتا ہے اور کئی موقعوں پر ہم سے ان چیزوں کے لیے ہمارے وسائل جیسے جنگلات، زمین، ماحولیات، ثقافت اور شناخت کی قربانی بھی مانگی جاتی ہے۔ ریاست اور اس کی حکومتیں ہمارے ساتھ ان وسائل کے بدلے ایسی سہولیات کا لین دین کرتی ہیں، جیسے یہ کوئی ریاست نہیں، بل کہ ایک نجی کارپوریشن ہے، جو ہمارے ساتھ شہری کا نہیں، بل کہ ایک گاہگ کا سلوک کرتی ہے۔ خیر یہ بڑی باتیں ہیں، انھیں یہاں چھوڑتے ہیں!
گذشتہ روز یہاں تحصیل بحرین میں کئی پلوں کا افتتاح ہمارے ایم پی اے میاں شرافت علی اور ہمارے جواں سال پڑھے لکھے کامریڈ ایم این اے ڈاکٹر امجد علی صاحبان نے کیا۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ ایسے افتتاحی پروگرام دو تین دفعہ پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ اُن کو خدشہ ہے کہ اس بار بھی کہیں یہ افتتاح حسبِ معمول ایک سیاسی نمایش ثابت نہ ہو۔ ووٹ کی سیاست نمایش ہی ہے، احسان جتانا ہی ہے اور لوگوں سے اس طرح ووٹ اور ہم دردی دونوں مانگنا ہی ہے۔ جب سیاست ایسی ہو، تو اس میں گلے شکوے نہیں ہونے چاہئیں۔
گذشتہ ادوار میں یہ پل، درولی اور آئین سمیت، ایم پی اے نے حکومت کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں صوبائی حکومت کے ذمے ڈالے تھے۔ کچھ کام ہوا بھی تھا۔ اُس وقت صوبے کے وزیرِ اعلا سوات سے تھے۔ پھر کوئی عجیب ’’نگران حکومت‘‘ آئی اور اُس کے بعد پی ٹی آئی کی تیسری حکومت اس صوبے میں آئی۔ جس کے وزیرِ اعلا ڈی آئی خان سے منتخب ہوا۔ لہٰذا پہلے جو ترجیح شمال کو دی جاتی تھی، اُس کی سمت جنوب کی طرف موڑ دی گئی۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ حکومت کے پاس فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ پلوں پر کام روک دیا گیا، بل کہ سرے سے منسوخ ہی کر دیا گیا۔
البتہ ورلڈ بنک نے خیبر پختون خوا حکومت سے مل کر خیبر پختون خوا ’’رورل ایکسیسی بیلیٹی پراجیکٹ‘‘ (KP Rural Accessibility Project) شروع کیا۔ شکر ہے کہ اُس میں درولی اور آئین کے پل بھی شامل کیے گئے۔ ورلڈ بنک چوں کہ یہ اور دوسرے کئی منصوبے صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کراتا ہے، لہٰذا ان پراجیکٹس کا کریڈیٹ بھی یہی حکومتیں لے سکتی ہیں اور اگر ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد سے کہیں کوئی تباہ کن ترقیاتی منصوبہ بھی کیا جاتا ہے، تو اس کا سہرا بھی ان حکومتوں کے سر ہوتا ہے اور ان کا ذمہ بھی ان پر پڑتا ہے۔
یہ حکومتیں یہ کریڈیٹ لینے میں حق بہ جانب ہیں۔ ان پلوں پر اُصولی طور پر جنوری میں کام شروع ہونا چاہے تھا، لیکن تاخیر کی گئی اور جس کا جواز اس منصوبے کا ذمے دار ادارہ پی آئی یو (جو صوبے کے سی این ڈبلیو سے ہی مختصر مدت کے لیے بنایا گیا الگ محکمہ ہے) یہ دیتا ہے کہ ان پلوں کی مد میں سابق حساب کتاب کرنا اور ان کے لیے نئے ڈیزائین بنانا تھا۔ چلیں، دیر آید درست آید! اب چوں کہ افتتاح ہوگیا، تو اُمید ہے کہ یہ کام جلدی شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ دریا میں پانی کا زیادہ بہاو آڑے آسکتا ہے ۔
ان پلوں پر مقامی لوگوں، خاص کر مذکورہ گاؤں کے لوگوں، کو کوئی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ان کو کسی تنازع میں ڈالنا نہیں چاہیے۔ گذشتہ تین مہینوں میں درولی اور آئین کے پلوں کے حوالوں سے زمینوں کے جو مسائل تھے، اُن کو مقامی لوگوں نے خوش اُسلوبی سے حل کیا ہے۔ اب بس ان پلوں کو بننا چاہیے۔ مزید کوئی لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ کاش! مضافات میں بھی اسی طرح جلدی کام ہوجاتا جس طرح اسلام آباد میں ہورہا ہے۔ اسلام آباد میں گذشتہ تین مہینوں میں کئی فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پیدل اور موٹر سائیکلوں کے لیے اوور ہیڈ پل بنائے گئے ہیں۔ یہاں اس میٹرو بس کو بھی مزید وسعت دی گئی ہے، جس پر کام جاری تھا۔ اُمید ہے کہ صوبائی حکومت کا وہ محکمہ جو ورلڈ بنک کے اس پراجیکٹ کے لیے مختص ہے، وہ تیزی سے ان پر کام کرے اور عوام کے لیے سہولیات ممکن بنالے۔
مدین تا کالام جو سڑک 2022ء کے سیلاب میں ٹوٹی تھی، وہ ابھی تک اسی طرح ہے۔ یہ ’’این ایچ اے‘‘ کے تحت آتی ہے اور اس کا تعلق صوبائی حکومت کے سی اینڈ ڈبلیو سے نہیں۔ کچھ رقوم مختص کی گئی تھیں، مگر کم تھیں۔ ہوسکتا ہے صوبے کی حکومت بہ ظاہر وفاقی حکومت کے مخالف ہے۔ اس لیے مواخذکر اس طرف توجہ نہیں دے رہی، مگر حیرت ہے کہ معدنیات اور سیاحتی عمارات کی خرید و فروخت و قانون سازی میں یہی وفاقی حکومت جس تیزی سے صوبائی حکومت کو مجبور کررہی ہے، وہ تیزی ہمیں اس صوبے میں وفاقی حکومت کے تحت منصوبوں میں دِکھائی نہیں دیتی…… اور جس طرح علی امین گنڈا پور صاحب معدنیات و سیاحت میں جس تیزی سے وفاقی حکومت کی مدد کر رہے ہیں، وہ پھرتی بڑی شاہ راہوں کے بارے میں نہیں دکھتی!
ہماری سیاست ان سہولیات کے فقدا ن کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ ہماری ترجیح تعلیم و علم نہیں، ورنہ اس صوبے کے لوگ اس پارٹی کو بھی خاطر میں لاتے، جس نے اپنے ایک دور میں اس صوبے کے ہر ضلع میں یونیورسٹیاں بھی تعمیر کی تھیں۔ خیر، چمک کی سیاست ہے اور وہ جو زیادہ چمکے گا، یا جس کو زیادہ چمکایا جائے گا، وہ آگے بڑھے کا!
مَیں اپنی طرف سے اس علاقے میں ان سب پلوں کے از سرِ نو تعمیر کے لیے افتتاحی پروگرام پر خوش ہوں اور ان منتخب نمایندگان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بس ایک تجویز ہے کہ ان گاوؤں کی خستہ حال سڑکوں کو بھی نظر میں رکھیں، تو از چہ بہتر!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
