انسانیت کے ماتھے پر یہ داغ ہمیشہ چمکتا رہے گا کہ کبھی انسان،انسان کی ملکیت ہوا کرتا تھا اور انسان نے انسان کا استحصال کیا ہے۔
قارئین! ازل سے انسانوں کی یہ جبلت رہی ہے کہ وہ دوسروں کو زیر کرکے خود کو برتر ثابت کرے اور اُنھیں اپنا غلام بنائے۔ اس لیے انسان تب بھی جنگیں لڑتا تھا اور آج بھی لڑ رہا ہے۔
غلامی کی سب سے بڑی وجہ خونی جنگیں ہی تھی۔ زیادہ سے زیادہ وسائل اور لوٹ مار کی لالچ میں انسان نے اپنے جیسے اشرف المخلوقات کو غلام بنایا۔ اس کے علاوہ تجارت میں فروخت ہونا، غلام خاندان میں پیدایش، قرض کا بروقت ادا نہ کرنا اور کسی جرم کی سزا کے طور پر غلام بننا بھی غلامی کی وجوہات میں شامل تھا۔
قارئین! یہ بات تو بیش تر جانتے ہوں گے کہ غلاموں کے حقوق ہوا کرتے تھے، نہ اُنھیں انسان ہی سمجھا جاتا تھا۔ اُن کی بس ذمے داریاں ہوا کرتی تھیں، جن میں اکثر جنسی مشقت بھی شامل تھی۔ مذکورہ سب ذمے داریاں کسی روز اُن کی موت پر تمام ہوجاتی تھیں۔
غلامی تقریباً ہر دور میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے ’’ارسطو‘‘ اور ’’پولی بیئس‘‘ (Polybius) جیسے مفکروں نے غلامی کو جائز قرار دیا تھا۔
اسلام نے بھی اسی وجہ سے غلامی کو مکمل ختم نہیں کیا تھا، البتہ اچھی خاصی اصلاحات کی تھیں۔ خطبہ حجۃ الوداع کے کچھ خوب صورت جملے ’’سب مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘، ’’غلاموں کو وہی کھلاؤ، جو خود کھاتے ہو، اُنھیں وہی لباس پہناؤ، جو خود پہنتے ہو‘‘ اس ضمن میں نہایت اہم ہیں۔
1948ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے اعلامیہ کو منظور کرتے ہوئے عالمی سطح پر غلامی کو ناجائز قرار دیا اور یہ واضح کردیا کہ آزادی ہر انسان کا عالمی انسانی حق ہے۔
غلامی میسو پوٹیمیا، مصری تہذیب، یونان، رومی سلطنت…… حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی طبقاتی تقسیم کی شکل میں زندہ رہی ۔عمومی طور پر تبدیلی تب آئی، جب جاگیر داری نظام کا دور آیا اور غلام کی ترقی ہوئی، یعنی وہ غلام سے مزارع بن گیا۔ واضح ہو کہ ان دونوں (غلام اور مزارع) کے بیچ بس حروف کا فرق تھا۔
صنعتی انقلاب نے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی اور ’’مزارع‘‘ کو دنیا کے کچھ خطوں میں ’’مزدور‘‘ بنا دیا۔ مشینوں کی ایجاد نے تو ظلم ہی کردیا۔ پھر جب ایک بڑی تعداد میں مزدور بے روزگار ہوگئے، تو اسی پس منظر میں استحصال کو روکنے کے لیے تنظیمیں ’’مزدور یونین‘‘ کے نام سے بننے لگیں، یعنی محنت کش ایک ہونے لگے۔ یوں اُنھوں نے یونین سازی کی بہ دولت نمایاں کام یابیاں حاصل کیں۔
1830ء میں برطانیہ میں "John Doherty” نے "National Association for the protection of labor” قائم کی۔ مذکورہ یونین کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی بار کسی ملک(سلطنت) نے باقاعدہ طور پر کوئی قانون (Factory Act) منظور کیا، جس کی رو سے 9 سال سے کم عمر کے افراد سے کام لینے پر پابندی عائد کی گئی، جب کہ 9 سے 14 سال کی عمر والوں کے لیے مزدوری کا دورانیہ 8 گھنٹے رکھا گیا۔
ہمارے آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 11 بھی شاید یہیں سے ماخذ ہے، جس کی رو سے 14 سال سے کم عمر بچے کو کسی پُرخطر پیشے میں ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔
اس کے علاوہ مذکورہ ایکٹ (Factory Act) کی رو سے 12 گھنٹے سے زیادہ کسی کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
قارئین! یہ ایک بہت بڑی کام یابی تھی، لیکن یہ برطانیہ تک ہی محدود رہی۔ اس دوران میں ’’کارل مارکس‘‘ (Karl Marx) اور ’’فریڈرک اینگلز‘‘ (Friedrich Engels) کے نظریات کی توسیع نے محنت کشوں کے خون میں نیا ولولہ پیدا کردیا اور محنت کش امریکہ کے شہر ’’شکاگو‘‘ میں بھی جبر اور استحصال کے آگے ڈٹ گئے۔ اُس وقت ہفتہ وار تعطیل بھی نہیں ہوتی تھی اور مزدوروں سے 20 تا 22 گھنٹے کام لیا جاتا تھا، جو کسی بھی انسان حتی کہ روبوٹ کے لیے بھی شاید ممکن نہ ہو۔
1886ء میں محنت کشوں نے شکاگو کے مارکیٹ اسکوائر پر مزدوروں کی امن ریلی کا انعقاد کیا اور کام کے دورانیے کو 8 گھنٹے پر محیط رکھنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران میں اشتعال پیدا ہوا، پولیس نے اُن پر فائرنگ کی اور اُن کے متعدد راہ نماؤں کو گرفتار کیا۔ کچھ راہ نماؤں کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔
عالمی سطح پر محنت کشوں نے اس واقعی کی بھرپور مذمت کی اور 1989ء میں انٹر نیشنل سوشلسٹ کانگریس نے یکم مئی کو عالمی سطح پر یومِ مزدور منانے کا اعلان کردیا۔ یہ دن اب مزدور جد و جہد اور عزمِ و استقلال کا ایک عالمی استعارہ بن گیا ہے۔ یہ شکاگو کی محنت کش راہ نماؤں کی جد و جہد کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں مزدروں کے اوقاتِ کار کا دورانیہ آج 8 گھنٹے ہیں۔
پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر 1919ء میں "Treaty of Versailles” ہوئی، جس میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا قیام بھی عمل میں آیا۔ 1946ء میں یہ اقوامِ متحدہ کی باقاعدہ ایجنسی بن گئی اور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان نے اس کے منشور پر دستخط کر دیے۔
لیکن پاکستان میں اب بھی محنت کشوں کی حالتِ زار کچھ اچھی نہیں۔ آج بھی مزدور اور مزارع غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مزدور بے چارہ آج بھی مہنگائی، بے روزگاری اور کم اجرت جیسے بڑے بڑے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ مزدوروں کی نمایندگی کرنے والی تنظیموں (ٹریڈ یونینز) کے ساتھ بھی تاریخی طور ریاست کا رویہ تسلی بخش نہیں رہا اور نہ آج ہی ہے…… لیکن پھر بھی وہ بھی اپنی محنت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ وہ کارل مارکس کے قول پر یقین رکھتے ہیں، جو فرماتے ہیں کہ’’دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جاؤ…… تمھارے پاس غلامی کی زنجیروں کو کھونے کے سوا اور کچھ نہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
