ریاست سوات کے کوٹہ قلعہ سے جڑی یادیں

Blogger Fazal Raziq Shahaab

کوٹہ قلعہ کا شمار ریاست کے اولین قلعہ جات میں ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ ریاست کا سرحدی قلعہ تھا۔ اس لیے اس کی عمارت بڑی شان و شوکت والی تھی۔ شاید یہ واحد قلعہ تھا،جس کے ارد گرد دوہری فصیل تھی اور فصیل میں بھی واچ ٹاؤر بنائے گئے تھے۔ مین بلڈنگ کے ٹاؤرز میں اُس وقت بھی وائرلیس کی انسٹالیشنز تھیں۔ بعد میں اُس کو ٹیلی فون کے ذریعے بہ راہِ راست سیدو شریف سے ملایا گیا۔جیمز ڈبلیو سپین اپنی کتاب "The Way of the Pathans” میں لکھتے ہیں کہ جب مَیں اس قلعے کے سامنے سے گزر رہا تھا، تو ایک قلعہ کے افسر نے مجھے رکوا دیا۔ مَیں اُس کے ساتھ قلعہ کے اندر اُس کے مخصوص کمرے میں چلا گیا۔ اُس نے ٹیلی فون پر کسی سے بات کی اور پھر مجھے کہا کہ تمھارا انتظار ہورہا ہے۔ تم جاسکتے ہو۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ اُس قلعہ دار نے بتایا کہ اسی ٹیلی فون پر وہ پہلے بادشاہ صاحب سے بات کرتے تھے۔ اب اُن کا بیٹا بادشاہ ہے، تو اُن سے ہدایات لیتے ہیں۔
جیمز ڈبلیو سپین جب پہلی بار سوات آئے، تو قلعہ اصل حالت میں تھا۔ بعد میں اُسے بوسیدہ ہونے کی وجہ سے گرا کر 1956ء میں اُس کی بہ نسبت چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا،جس کی تصاویر اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کو بھی 90ء کی دہائی میں مخدوش صورتِ حال کے پیش نظر گرایا گیا۔ مَیں نے اُسی 1956ء والے قلعہ میں دو تین بار رات گزاری ہے۔ میرے ایک دور کے رشتے دار سیف الرحمان مذکورہ قلعہ میں مرزا تھے۔ رہایشی مکانات دو منزلہ تھے، جن میں اوپر نیچے الگ الگ سپاہی بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔
مجھے اب بھی وہ راتیں یاد ہیں، جو مَیں نے قلعہ کے اندر گزاریں۔ پُرفسوں راتیں، اونچی اونچی فصیلوں کی وجہ سے بندہ خود کو کنویں جیسی گہرائی میں محسوس کرتا۔ ستارے زیادہ دور اور چمک دار لگتے۔ اُس وقت میری عمر 15 سال تھی۔ اس لیے سہما سہما سا تھا۔ خوف کی کچھ بات نہیں تھی، مگر ویسے ہی مَیں سوچتا کہ اگر اِس وقت دشمن فوجیں قلعہ پر حملہ آور ہوں، تو مَیں کس طرح خود کو بچا ؤں گا اور قلعہ میں مقیم سپاہی کتنی دیر تک مزاحمت کرسکیں گے؟ بس اس قسم کے خیالوں میں رات سوتے جاگتے گزر جاتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے