میرا خیال ہے کہ سنہ 1948ء، 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد پاک بھارت کشیدگی اِس وقت انتہا پر ہے۔ شاید اتنی تلخی سیاچن گلیشیر اور کارگل کے وقت بھی نہ تھی۔
یہ بات تو طے ہے کہ یہ کشیدگی کسی باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار نہیں کرے گی، نہ ایسا ہونا ہی چاہیے۔ کیوں کہ دنیا کو معلوم ہے کہ اگر پاک بھارت رسمی جنگ میں اُلجھے، تو یہ بہ راہِ راست تمام دنیا کے ماحول اور خاص کر معیشت کے لیے ناقابلِ یقین تباہی ہوگی۔
یہ بہت دل چسپ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں، بل کہ عوام سے زیادہ اس جنگ کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے سرمایہ کار اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کردار زیادہ متحرک ہوگا۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ان دونوں ممالک میں موجود ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ مذکورہ دونوں ممالک کی معیشت آدھی سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار کرتی ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ اس لیے ہم اس خیال سے اتقاق نہیں کرتے کہ دنیا یا دنیا کے بڑے ممالک اس جنگ کو کروانا چاہتے ہیں۔ دنیا کو معلوم ہے کہ دو متوازی ایٹمی طاقتیں ہیں اور یقینی طور پر رسمی جنگ میں پاکستان بھارت سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بالآخر پاکستان اپنی بقا کے لیے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگا اور جواباً بھارت بھی خدا نہ خواستہ یہ قدم اٹھاسکتا ہے۔ اس کامتوقع نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ نہ صرف دونوں ملک مکمل تباہ ہوسکتے ہیں، بل کہ اس کے بہ راہِ راست اثرات چین، ایران، افغانستان، تاجکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، میانمار وغیرہ پر بھی پڑیں گے۔ جب کہ معاشی و سیاسی طور پر اقوامِ عالم کو کھربوں ڈالر کا خسارہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہمارے دانش وروں، خاص کر پاکستان کے ’’غزوۂ ہند‘‘ کے نعرے بازوں کی منطق کو صحیح تسلیم کرلیا جائے، تو پھر تیسری خوف ناک عالمی جنگ کسی طور پر روکنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ ہمارے دانش ور بھارت کے پیچھے مغرب، خاص کر امریکہ و برطانیہ کو قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل پھر خود بہ خود اُن کا اتحادی ہوگا۔ مطلب، اس خطے پر امریکی چوہدراہٹ کہ جس کو چین، روس اور بہت حد تک عرب ممالک تسلیم نہیں کرسکتے…… گویا یہ بلاک پاکستان کے ساتھ ہونا مطلوب ہے، تو پھر عالمی جنگ کو کون روک سکتا ہے؟
بہ ہرحال ہمارا تجزیہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی آیندہ آنے والے دنوں میں زیادہ بڑھ سکتی ہے، لیکن کسی جنگ کی شکل اختیار کرنا بہ ظاہر نا ممکن ہی ہے۔ البتہ اس کشیدگی کے دباو میں شاید پاکستان سے کچھ باتیں منوا لی جائیں، لیکن اصل مسئلہ تو یہ پاک بھارت کا ہے۔ اب پاک بھارت دونوں حکومتوں اور خاص کر عام عوام، دانشورانِ ملت، سپورٹس شخصیات، شوبز سے وابستہ لوگوں، مصنفین، صحافیوں، اساتذہ اور مذہبی راہ نماؤں کا فرض ہے کہ وہ آگے آکر اس کو روکنے میں کردار ادا کریں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں دونوں ملکوں کے عوام برابر کے مجرم اور ذمے دار ہیں۔
آج اس 21ویں صدی میں جب دنیا میں عزت کے معیار بدل چکے ہیں۔ اب جغرافیائی چوہدراہٹ کے بہ جائے معیشت و سفارت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ آپ دنیا کو دیکھیں۔ یورپ، یونان سے برطانیہ اور سکاٹ لینڈ تک پورا یورپ ایک ملک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ بارڈر کھول دیے گئے ہیں۔ آپ ایتھن سے پیرس تک بہ ذریعہ سڑک سفر کریں، آپ کو محسوس ہی نہیں ہو گا کہ آپ دوسرے ملک مثلاً: ہنگری، ہالینڈ یا اٹلی داخل ہوچکے ہیں۔ نہ سرحدی چوکیاں، نہ امیگریشن کے معاملات…… بس ایک چیز سے آپ کو معلوم ہوگا اور وہ یہ کہ آپ کے موبائل پر ایک پیغام آئے گا کہ آپ کے فون کا ملکی کوڈ بدل گیا ہے، یعنی اب آپ کسی نئے ملک میں داخل ہوگئے ہیں۔
اسی طرح کا ماحول آپ کو برِ اعظم امریکہ میں ملے گا۔ امریکہ اور کینڈا کی سرحد رسمی رہ گئی ہے۔ یہی طریقہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا ہے۔ آپ کے قریب ترین روسی ریاستوں میں اور پھر شرق الوسط کے عرب ممالک، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت سب مل چکے ہیں۔ مشرقِ بعید میں کوریا، ہانگ کانگ، سنگا پور، جاپان تک یہی ماحول ہے۔ حتی کہ افریقہ کے پس ماندہ ممالک دیکھیں: کینیا، زمبابوے، جنوبی افریقہ، ذمبیا وغیرہ…… لیکن یہاں ہمارے ہاں
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
والا ماحول ہے۔ ایک ہی نسل، ایک ہی تاریخ، ایک ہی ثقافت، ایک ہی زبان اور رہن سہن، ایک ہی تاریخ…… لیکن لڑ لڑ کر نفسیاتی مریض ہوچکے ہیں۔ کتنی عجیب اوراحماقانہ بات ہے کہ ہر سال کروڑوں لگا کر ایک تقریب ہوتی ہے واہگہ بارڈر پرگارڈ کی تبدیلی کی۔ آپ یقین کریں سنجیدہ حلقوں کے نزدیک یہ ایک ’’مزاحیہ شو‘‘ ہوتا ہے، جہاں پر مقابلہ بس پاؤں اونچا اٹھانے کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سال بھر دونوں ممالک میں تین چار قومی سطح کی تقریبات ہوتی ہیں، جہاں اربوں ڈالر کا خرچہ ہوتا ہے اور مقصد صرف مسلز دکھانا ہوتا ہے کہ ہماری فوجی صلاحیت کتنی پُراثر ہے۔
افسوس کہ شروع دن ہی سے ہم دونوں ممالک میں طاقت ور حلقوں نے عوام کے اندر نفرت کے بیجوں کی آب یاری کی۔ اب پاکستان میں غزوۂ ہند کے مشتاق بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ جن کے نزدیک کسی جنگ میں فتح یا شکست اہمیت نہیں رکھتی، بل کہ ان کا مقصد صرف جنگ ہے…… اور یہ جنگ کسی خاص علاقہ یا مقصد سے وابستہ نہیں۔
مثلاً: اگر بھارت پورا کشمیر مکمل سیاچن بھی پاکستان کے حوالے کر دیتا ہے، مشرقی پنجاب میں سکھوں کی ریاست قائم ہو جاتی ہے، تب بھی ان کے نزدیک ’’غزوۂ ہند‘‘ ہونا ہی ہے۔ یہ کام وہ خود کرنا چاہتے ہیں، بغیر امام مہدی کے ظہور کے۔
دوسری طرف بھارت میں اول ہی دن سے ایک ہندو انتہا پسند فکر موجود ہے کہ جن کا مسئلہ نہ کشمیر ہے، نہ پانی، نہ دہشت گردی…… بل کہ یہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے متمنی ہیں۔ انھوں نے ہر صورت میں پاکستان کو مکمل ختم کرکے بھارت میں ضم کرنے کی شاید ایک ناممکن خواہش کو جاری و ساری رکھنا ہے۔
بے شک فکر کے یہ دونوں زاویے اول دن ہی سے کسی نہ کسی حد تک موجود تھے اور اسی فکر نے مہاتما گاندھی جیسے عظیم شخص کی جان لی، لیکن بدقسمتی سے بعد کے سالوں میں دونوں طرف کے مفاد پسند عناصر نے اس کو خوب بڑھاوا دیا اور ان دونوں طبقوں کو بہت ہوش یاری سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا…… لیکن اب وقت آگیا ہے کہ صورتِ حال کو ٹھنڈا کیا جائے، اور عوامی سطح پر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے، جو جہالت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستانیوں میں ’’عاشقانِ غزوۂ ہند‘‘ کو یہ حقیقت بتائی جائے کہ غزوۂ ہند بہ راہِ راست امام مہدی سے وابستہ ہے۔ سو تم لوگ مہربانی کرو اور ظہورِ مہدی کا انتظار کرو۔ تب تک اپنی قوم اور ملک کو ترقی کی جانب سفر کرنے کی اجازت دو۔
البتہ اُس وقت کی تیاری کرنا تمھارا حق، بل کہ ایک طرح سے فرض ہے۔ یعنی امام مہدی کے لشکر کا حصہ بننے کے لیے تمھیں دماغی طور پر عقل مند اور تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ تمھاری معیشت اور تعلیم کو بہتر سے بہترین ہونا مطلوب ہے۔ تم کو سفارتی اور فوجی طور پر ناقابلِ شکست ہونا چاہیے۔ خصوصاً تمھارا کردار تقریباً اصحابِ رسول صلعم کے لیول کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ امام مہدی کو جاہل، کند ذہین، فاقہ کش، اَن پڑھ اور احمق مجاہدین بالکل پسند نہیں ہوں گے۔ منافق اور بدکردار تو کلی طور ناقابلِ قبول ہوں گے۔
اس کے ساتھ بھارت میں بھی بھاج پا فکر اور بال ٹھاکرے کے شاگرد ہیں۔ اُن کو بتایا جائے کہ پاکستان ایک واضح حقیقت ہے اور آپ پاکستان کو طاقت کے زور پر دوبارہ ہند میں ضم کرلیں، یہ عملاً ممکن نہیں۔ آپ نے پاکستان کو توڑا اور مشرقی پاکستان 100 فی صد آپ کی سازش سے علاحدہ ہوا، لیکن آپ پھر بھی اس کو ہندوستانی بنگال کا حصہ نہ بناسکے۔ وہ ایک علاحدہ ملک ہی بنا…… تو پاکستان کو آپ کس طرح ہڑپ کر سکتے ہیں؟
اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ پاکستان کو بہ طور صوبہ تاج دہلی کے تحت رکھ پائیں گے؟ ناممکن…… کیوں کہ پھر یہ 25 کروڑ باغی شاید بھارت کا حصہ بن کر آپ کو وہ نقصان پہنچا دیں، جو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ بن کر نہیں پہنچا سکتے۔ اس وجہ سے بندے کے پتر بنیں اور غیر حقیقی خواب دیکھنا بند کریں۔
لیکن اہم ترین بات وہ حلقے ہیں کہ جو ان طبقات کو یا ان کے جذبات کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان اور ہند دونوں ممالک میں، مثال کے طور ابھی جو دہشت گردی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی، اس کو سن کر بھارتی وزیرِ اعظم اپنا سعودی عریبہ کا اہم ترین دورہ مختصر کرکے واپس آگئے۔ مقصد دنیا کو اور بھارتی عوام کو یہ تاثر دینا تھا کہ وہ ان حالات میں اس واقعے کی اہمیت اور حساسیت سے آگاہ ہیں۔ اتنا اہم دورہ تو مختصر ہوگیا، لیکن مودی جی نے بہار میں طے شدہ انتخابی ریلی کو ملتوی کرنا ضروری نہ سمجھا، بل کہ نیو دہلی اترتے ہی وہ دوسرے دن بہار پہنچ گئے اور اس انتخابی ریلی میں بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کے مسائل، پنشن کے معاملات وغیرہ کو موضوع نہ بنایا، بل کہ ’’پہلگام واقعہ‘‘ کا بھی جزوی ذکر کیا اور اس کے بعد ساری تقریر پاکستان کے خلاف کی۔ بچکانہ دھمکیاں دیں۔ نوری نت والے ڈائیلاگ بولے اور آخر میں یہ پتے کی بات بتائی کہ پاکستان ہند کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان کی نام نہاد دہشت گردی روکنے کے لیے بہار کے عوام کا بھاج پا سرکار کو ووٹ دینا ضروری ہے۔
یہ ہے اُس رویہ کی ایک مثال کہ جو دونوں طرف کے صاحبِ اختیار حلقے استعمال کرتے ہیں۔اب جو معصوم عوام خاص طرح کے ایک فکری رویہ میں غرق ہیں، اُن کو تو طاقت ور حلقے راہِ راست لاسکتے ہیں، لیکن ان طاقت ور حلقوں کو راہِ راست پر کون لائے؟ اس کے لیے کوئی باہر سے نہیں آئے گا، بل کہ ان کو راہِ راست پر عام شہری ہی لاسکتا ہے۔
سو عام شہری سوالات اٹھائے اور بغیر کسی خوف یا جھجھک کے اٹھائے۔ پاک و ہند کے قریب پونے دو ارب انسانوں کو سوال کرنے ہوں گے۔ مَیں بہت متاثر ہوں بھارت کی ایک انسانی حقوق کی متحرک کارکن اور گلوکارہ نہیا راٹھور سے۔ اُس نے مودی سرکار کی مفاداتی پالیسیوں کے کڑاکے نکال کر رکھ دیے۔ اب بی جے پی کے کرتا دھرتا اُس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اُس کو غدار بنا دیا گیا ہے۔ اُس پر ایف آئی آر کٹوا دی گئی ہے، لیکن یہ خاتون مکمل دلیری سے ڈٹ کر کھڑی ہے اور روز مودی سرکار کے لتے لیتی ہے۔ جہاں تک میرا علم ہے، یہ خاتون مودی کے مکمل قومی میڈیا، سیاسی صحافت اور لاکھوں بی جے پی کے کارکنوں پر بھاری پڑچکی ہے۔ اس کی سوچ دن بہ دن بھارتی معاشرے میں جگہ بناتی جا رہی ہے۔ اس وقت مذکورہ دونوں ممالک کو ایسی ہزاروں نہیا راٹھور جیسی شخصیات کی ضرورت ہے۔ آئیں، سب نہیا راٹھور بن کر اپنی قوم و ملک کی قسمت سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
