شخصیت پرستی اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار

Blogger Fazal Khaliq

قارئین! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم بار بار کیوں انھی چہروں کے گرد گھومتے ہیں؟ کیوں ایک وقت میں ایک شخصیت ہمارے لیے نجات دہندہ بن جاتی ہے اور اگلے ہی لمحے وہ ’’غدار‘‘” قرار دے دی جاتی ہے؟ یہ کوئی اتفاق نہیں، بل کہ ایک منظم منصوبہ ہے۔ ایک ایسا منصوبہ، جس میں ریاستی طاقت کا استعمال کر کے شعور کی جگہ عقیدت کو بٹھایا گیا ہے۔
آپ اگر کسی پانچ سال کے بچے سے پوچھیں کہ پاکستان کے سیاسی راہ نماؤں میں سے کسی کا نام لو، تو وہ فوراً کہے گا ’’عمران خان۔‘‘ یہ صرف ایک بار کا اتفاق نہیں، بل کہ ایک پورے بیانیے کا نتیجہ ہے، جو سالوں سے ہماری فضا میں گونج رہا ہے۔
مجھے حالیہ انتخابات کے دن کا ایک واقعہ یاد آتا ہے، جب مَیں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن گیا۔ مَیں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے بیلٹ پیپر پر مہر لگانے والا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس کا تین یا چار سال کا بچہ تھا، جو معصومیت سے اپنے والد سے کَہ رہا تھا: ’’پاپا عمران خان……!‘‘ مَیں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، یہ بچہ عمران خان کے بارے میں کیا جانتا ہوگا؟ وہ نہ تو پاکستان کے سیاسی حالات سمجھ سکتا تھا، نہ اُسے اچھے لیڈر کی خصوصیات کا علم تھا، نہ وہ جمہوریت، الیکشن یا حکومتی نظام کی پیچیدگیوں سے واقف ہی تھا۔ پھر وہ بار بار یہی نام کیوں لے رہا تھا؟
ظاہر ہے، اُس کی ماں، باپ یا گھر کے کسی بڑے نے اُس کے کان میں یہ بات ڈال دی ہوگی کہ بیٹا! پاپا سے کہنا کہ عمران خان۔
یہ وہ لمحہ تھا، جب مجھے شدت سے احساس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے دو دہائیوں تک جس پروپیگنڈے کو پروان چڑھایا، وہ کس قدر کام یاب رہا۔ ایک ایسا بیانیہ جو میڈیا، نصاب اور عوامی جذبات کے ذریعے اس حد تک عام کیا گیا کہ بچے بھی غیر شعوری طور پر اس کا حصہ بن گئے۔
یہ صرف ایک سیاسی جماعت یا لیڈر کی حمایت کا معاملہ نہیں تھا، بل کہ یہ اس نفسیاتی حکمتِ عملی کی کام یابی کا ثبوت تھا، جس کے تحت عوام کے ذہنوں میں ایک خاص شخصیت کو ’’نجات دہندہ‘‘ کے طور پر بٹھایا گیا۔ اُس بچے کا معصومانہ جملہ دراصل ایک پوری قوم کی اجتماعی ذہن سازی کی عکاسی کر رہا تھا، جو اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے گہرے اثرات کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ شخصیت پرستی کے اس پروپیگنڈے کو لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس قدر راسخ کر دیا گیا ہے کہ اُنھوں نے سوچنے، اچھے برے کی تمیز کرنے، قابلیت اور اہلیت کو پرکھنے جیسے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ پروپیگنڈا قوم کو اندھی تقلید کی راہ پر ڈالنے اور ایک تاریک راستے کی طرف لے جانے میں کام یاب رہا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کسی فرد کی مسلسل اور حد سے بڑھ کر تعریف کی جائے، اور وہ تعریفی کلمات کسی ایک پلیٹ فارم تک محدود نہ ہوں، بل کہ ہر عوامی فورم، سوشل میڈیا، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر دن رات اس کے گُن گائے جائیں، تو رفتہ رفتہ وہ شخص معاشرے میں ایک ’’ہیرو‘‘ کا روپ دھار لیتا ہے، چاہے اُس کی اصل شخصیت میں کوئی نمایاں خوبی نہ ہو۔
اسی دوران میں اگر اُس کی تعریف کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کی کردار کشی بھی کی جائے، چاہے وہ الزامات درست ہوں یا غلط، تو رائے عامہ پر اس منفی مہم کا اثر اور بھی گہرا ہوتا ہے۔ جب کسی ایک شخص کی تعریف اور دوسروں کی مذمت ایک خاص بیانیے کے تحت مسلسل کی جائے، تو عام لوگ، خواہ وہ کتنے ہی باشعور کیوں نہ ہوں، اس پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اس شخصیت کی عقیدت میں ڈوب جاتے ہیں۔
اس کے بعد وہ شخص اگر سنگین ترین غلطیاں یا گناہ بھی کرے، تب بھی اس کے چاہنے والوں کو وہ برائیاں نظر نہیں آتیں۔ وہ ہر بات کو درست ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی نظر میں وہ شخصیت کسی خطا سے مبرا ہوتی ہے۔
مختصراً، شخصیت پرستی ایک ایسا رویہ ہے، جو معاشرے کو اندھا بنا دیتا ہے، ایسا اندھا پن جو حق و باطل، سچ اور جھوٹ، اور عدل و ناانصافی کے درمیان تمیز ختم کر دیتا ہے…… اور اسی طرح پاکستان کی بڑی تعداد نے محض عمران خان کے نام پر ایسے نااہل اور ناتجربہ کار افراد کو منتخب کرلیا، جو نہ تو عوامی خدمت کے قابل تھے، نہ اپنے علاقوں کی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہی کرسکتے تھے۔ ایوانوں میں بیٹھنے کے باوجود وہ موثر قانون سازی کرنے میں ناکام رہے، مگر ایک کام ضرور ہوا، یہ منتخب اراکین بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور اثاثے بنانے میں مصروف رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے، جب کہ عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہی رہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شخصیت پرستی کو محض عوام کے جذبات یا سماجی رجحانات تک محدود نہیں رکھا جا سکتا، بل کہ اسے ایک شعوری حکمتِ عملی کے تحت پروان چڑھایا گیا ہے۔ خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ (یعنی فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور طاقت ور ادارے) نے کئی مواقع پر شخصیت پرستی کو جان بوجھ کر فروغ دیا، تاکہ اپنی طاقت کو مستحکم کیا جاسکے اور عوامی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر ایک مخصوص لیڈر یا جماعت تک محدود رکھی جائے۔
٭ اسٹیبلشمنٹ اور شخصیت پرستی، ایک تاریخی تجزیہ:۔ پاکستان کے قیام کے بعد ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہاں طاقت کا اصل محور عوامی قیادت کے بہ جائے وہ ادارے ہوں گے، جو پسِ پردہ فیصلے کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ایسے راہ نماؤں کی سرپرستی کی جو اُن کے مفادات کی حفاظت کرسکیں اور جو راہ نما خود مختاری دکھانے لگے، اُن کے خلاف سازشیں رچائی گئیں۔
٭ ایوب خان، پہلا مسیحا:۔ 1958ء میں جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا، تو انہیں ’’پاکستان کا نجات دہندہ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔ اُن کے دور میں سرکاری میڈیا، نصابِ تعلیم اور پروپیگنڈا مشینری نے اُنھیں ایک غیر معمولی راہ نما کے طور پر متعارف کرایا۔ اُن کے بارے میں کتابیں لکھی گئیں، ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے اور یہاں تک کہ نصاب میں اُن کی ’’اصلاحات‘‘ کو سنہرے الفاظ میں لکھا گیا۔
٭ ضیاء الحق، اسلام کا محافظ:۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا، تو اُنھوں نے اسلام کو اپنے اقتدار کی بنیاد بنایا۔ اُنھیں ایک اسلامی حکم ران کے طور پر پیش کیا گیا، یہاں تک کہ اسکولوں میں یہ سکھایا جانے لگا کہ وہ پاکستان کو ’’حقیقی اسلامی ریاست‘‘ بنانے کے لیے آئے ہیں۔ اُن کے اقدامات پر سوال اُٹھانے والوں کو غدار اور کافر قرار دیا جاتا تھا۔
٭ پرویز مشرف، جدیدیت کا علم بردار:۔ 1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا، تو اُنھیں ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’جدید پاکستان‘‘ کا نمایندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ میڈیا پر اُن کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور یہ بیانیہ عام کیا گیا کہ صرف وہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔
آج بھی اسٹیبلشمنٹ شخصیت پرستی کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ جب کسی لیڈر سے اُن کے تعلقات اچھے ہوتے ہیں، تو اُسے مسیحا بنا دیا جاتا ہے، اور جب وہ پٹری سے اترنے لگے، تو اُس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک وقت میں نواز شریف کو ’’پاکستان کا معمار‘‘ کہا گیا، پھر اُنھیں کرپٹ ثابت کرنے کی مہم چلائی گئی۔ عمران خان کو 2018ء میں ’’ملک کی آخری اُمید‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔ بعد میں جب معاملات خراب ہوئے، تو انھی کے خلاف سازشیں کی گئیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے