سانحۂ کاٹلنگ، ریاست اور عید

Blogger Ikram Ullah Arif

رمضان گزر گیا اور جس طرح گزرا، وہ سب کو معلوم ہے۔ ملکِ عظیم کے دو صوبوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا، جب کوئی اندوہ ناک واقعہ پیش نہ آیا ہو۔
عید سے کچھ پہلے کاٹلنگ کے پہاڑوں میں جو سانحہ رونما ہوا، وہ اب تک ایک معما ہی ہے۔ وفاق کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے ’’دہشت گرد‘‘ یا اُن کے ’’سہولت کار‘‘ تھے۔ جب کہ مقامی لوگوں کے مطابق نشانہ بننے والے سبھی چراوہے تھے، اسی وطن کے شہری تھے اور اُن میں کوئی غیرملکی نہ تھا۔
اس معاملے کی تحقیقات لازمی ہونی چاہئیں۔ کون سچا ہے اور کون جھوٹا……؟ اس کا منطقی حل نکل آنا چاہیے۔
فی الحال جو باتیں زبان زدِ عام ہیں، اُن کے مطابق وفاقی حکومت کا موقف کم زور ہے۔ کیوں کہ اگر مرنے والے دہشت گرد تھے، تو اُن کی شکلیں پورے ملک کو دکھائی جانی چاہیے تھیں۔ اُن کا ضرور کوئی مجرمانہ ریکارڈ رہا ہوگا، جسے عام کرنا چاہیے تھا، تاکہ عوام کویقین آتا کہ ہاں……، اب”Good” اور "Bad” والا معاملہ ختم ہوگیا ہے۔
کہتے ہیں کہ سنپولے بڑے ہوکر سانپ ہی بن جایا کرتے ہیں۔ اس لیے ہر چھوٹے سے چھوٹے سنپولے کا بروقت تدارک لازم ہوتا ہے، مگر یہاں حسبِ معمول گنگا اُلٹی ہی بہہ رہی ہے۔
وفاق نے صرف ’’دہشت گردی‘‘ کا کَہ کر خاموشی اختیار کرلی، جب کہ مقامی لوگ اور مقامی سیاست دان آج بھی اس بات پر مصر ہیں کہ مرنے والے سبھی عام شہری تھے۔
اس صورتِ حال میں حیران کن بات ریاست کی خاموشی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ریاستی رضامندی اور عمل داری سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔
اب اگر اس معاملے کی تحقیقات نہیں ہوتیں، تو اس سے عدمِ اعتماد کی فضا مزید مستحکم ہوجائے گی، جو کہ کسی بھی صورت اچھی بات نہیں۔ ویسے بھی اس وقت عوامی بے زاری کا رونا رویا جارہا ہے۔ عوام کو اپنے ساتھ ملانے اور ریاستی اُمور چلانے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف عوام کو اعتماد میں لیا جائے، بل کہ عوام پراعتماد بھی کیا جائے۔ نیز حکومتی و ریاستی فیصلے واضح ہوں اور عوام کو یقین ہو کہ رات کی تاریکی میں کچھ نہیں کیا جاتا، بل کہ سب کچھ دن کی روشنی میں عوامی و ملکی فائدے میں کیا جاتا ہے۔
اگر اسی طرح کہرے میں مرنے مارنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تو پھر خیر کسی کی نہیں۔ خوف جب عام ہوجاتا ہے، تو پھر ہر کسی کو اپنی جان اور اولاد کے علاوہ کسی چیز کے کھونے کی پروا نہیں ہوتی۔
پختونوں کی ایک بات ویسے کمال کی ہے کہ ان میں بڑے سے بڑے غم کو برداشت کرنے کی صلاحیت دیگر قوموں کے مقابلے میں زیادہ ہے، یا یوں کَہ لیں کہ ان پر اتنے ستم ڈھائے گئے ہیں کہ اب ہر ستم کو ’’ادائے صنم‘‘ جان کے سہ لیتے ہیں۔ اس بات کا ادراک مجھے اس عید کے موقع پر ہوا۔ عید کے تینوں دن سیاحتی مقامات پر جو ہلا گلا رہا، اُس سے اندازہ ہوا کہ کسی کو خیال ہی نہیں رہا کہ پورا ماہِ رمضان کس تکلیف میں گزرا ہے۔
ذاتی طور پر تو مجھے عام عوام کی اس روش پرخوشی ہوئی۔ کیوں کہ خوشی کے موقع پر خوشی ہی منانی چاہیے۔ بے وقت کارونا اچھا نہیں لگتا، لیکن سنجیدہ فکر لوگوں کے ہاں یہ فکر ضرور پائی جاتی ہے کہ عارضی خوشی کے لیے دائمی معاملات کو نہیں بھولنا چاہیے۔
عید کی خوشی تین دن کی ہوتی ہے اور امن ایک مستقل ضرورت ہے۔ عید سال میں دوبار منائی جاتی ہے، لیکن اگر امن میں رخنہ پڑجائے، تو پھر لوگ عید کے روز نمازِ عید بھی بندوقوں کے سائے میں ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس بار تو شکر ہے کہ پورے ملک میں عید پُرامن طریقے سے گزری اور کہیں پربھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ہم غریبوں کے لیے ہر وہ روز، عید کا روز اور شب، شبِ برات ہے، جو پُرامن گزر جاتی ہے۔
جس دن خون خرابے کی خبریں نہ آئیں، وہ سب سے پُرکیف دن ہوتا ہے، تو اس لیے عید کے ان دنوں میں سیاحوں کی مستیاں دیکھ کر اچھا لگا۔ بس ان مستیوں میں غلطی یہ ہوجاتی ہے کہ اپنی مستی کے لیے دوسروں کو تکلیف دی جاتی ہے۔ مثلاً: سیاحتی مقامات پر عموماً بھیڑ ہوتی ہے، جو بہ ظاہر جگہ کی کمی، لوگوں کی زیادتی اور پارکنگ نہ ہونے کے سبب ہوتی ہے، لیکن اگر بہ غور جائزہ لیا جائے، تو غلط ڈرائیونگ، غلط پارکنگ اور رانگ سائڈ ڈرائیونگ بھی بنیادی اسباب میں شامل ہیں۔
اسی طرح سیاحتی مقامات پر کچرا پھینکنا اور مقامی روایات کا خیال نہ رکھنا بھی پریشانی کا سبب بنتاہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ کرے یہاں بدامنی کا مکمل خاتمہ ہو، جب کہ امن، محبت، کتاب اور رباب کا دور دورہ ہو، تاکہ ہر روز عید کا سماں ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے