سوات بحرین اور تاریخ

Blogger Zubair Torwali

مَیں نے اپنی فیس بُک وال پر 1980ء کی دہائی میں بحرین کی کھینچی گئی ایک تصویر دی ہے، جس میں سارے گھر کچے ہیں اور پتھر، لکڑی اور مٹی کے بنے ہیں۔
اب موجودہ بحرین سوات کو دیکھ لیں، تو کنکریٹ اور سیمنٹ کا ایک شہر معلوم ہوتا ہے، جس میں سبزہ ختم ہوچکا ہے۔
بحرین عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ’’دو بحر‘‘ کے ہیں۔ یہاں دو دریا آکر ملتے ہیں۔ بحرین کا یہ نیا نام اس کو والئی سوات نے دیا۔ اُس سے پہلے اس کو پشتو میں ’’برانیال جدید‘‘ نام دیا گیا۔ یہ نام برانیال اس کے اصل توروالی نام ’’بھؤونال‘‘ کا ترجمہ ہے۔ ’’بھؤون‘‘ کو بعد میں ’’بھون‘‘ کہا گیا۔ ’’بھؤون‘‘ کا مطلب مقامی/ بھومی/ بومکی کے ہے، جس کو مقامی طور پر قبائلی تعصب کی وجہ سے ایک اور مطلب بھی پہنایا گیا۔ توروالی میں بھون اُن باقی ماندہ ٹہنیوں کو بھی کہا جاتا ہے، جو یہاں کھیتوں کے دھیر اور دیھر خُون (پہاڑی کھیت چوں کہ سیڑی نما ہوتے ہیں، تو ان کے اوپر والے دھانے کو توروالی میں دھیر کہا جاتا ہے، جبکہ دھیر کے نچلے تہہ کو دھیر خُون کہا جاتا ہے) سے گھاس، خصوصاً ’’کراکر‘‘ نامی گھاس کاٹنے کے بعد رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے کئی لوگوں نے یہاں کے ایک قبائلی اتحاد بھون کو خس و خاشاک کہا۔ ایسا صرف مقامی سیاسی کش مہ کش کی وجہ سے کیا گیا، ورنہ اسی لفظ بھون کے معنی اصل یا باقی رہنے والے کے بھی ہیں۔
بھونال کا ایک پرانا نام در (یعنی دروازے سے آگے ہم وار جگہ) ہے۔ یہ نام بحرین کے پرانے حصے گام کو کیمبیل والوں نے دیا۔ یہ نام کیمبیل (کمبلئی) کے پرانے باشندوں نے دیا ہے کہ یہ گام کیمبیل کے گھروں کے سامنے ہم وار جگہ تھی۔
پران گام (پرانہ گاؤں/ زوڑ کلے) جو بحرین سے جنوب مغرب کی طرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اوپر ٹیلے پر واقع ہے، کے نام کی نسبت سے لگتا ہے کہ بحرین کو کسی زمانے میں مقامی لوگوں نے ’’نم گام‘‘ یعنی نیا گاؤں بھی کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’پران گام‘‘ کو قدیم برانیال لکھا گیا ہے اور بحرین کو جدید برانیال۔
مذکورہ تصویر بہت بعد کی ہے۔ اس سے 100 سال پہلے 1880ء میں کرنل بڈلف نے اپنی کتاب ہندوکش کے قبائل میں توروال علاقے میں چیل گاؤں کو سب سے بڑا گاؤں شمار کیا تھا اور اس کے بعد یمیٹ (رامیٹ) بڑا گاؤں تھا۔
توروال علاقے میں 1922ء کو ریاست سوات آنے کے ساتھ سڑک کی تعمیر نے، جیسے عمومی طور پر ہوتا ہے، مقامی آبادیوں میں تبدیلی لائی اور اس کے بعد برانیال/ بحرین پورے توروال (تحصیلِ بحرین) کا صدر مقام بن گیا۔ ریاستِ سوات کے آنے سے پہلے بھی برانیال کی مرکزی حیثیت قائم ہوئی تھی۔ کیوں کہ لیٹنر نے گلگت سے راجہ شاہ جہان کی قیادت میں جو وفد اس علاقے میں بہ راستہ پلوگا مٹلتان بھیجا تھا، انھوں نے برانیال کو مرکزی گاؤں قرار دیا تھا۔
پورا توروال علاقے یعنی تیرات/ پیا سے اوپر کا علاقہ پہلے توروالیوں کے مختلف قبائل میں تقسیم تھا۔ عبدالجلیل خان ( 93 سال عمر) کے مطابق چیریٹ (مدین) اور شاہ گام (شاہ گرام) کو بعد میں مذہبی طور پر معتبر لوگوں کو اسلام آنے کے بعد بہ طورِ سیرئی دیا گیا۔ مدین پر زیادہ تر اُولال درے والوں کا تصرف تھا اور شاہ گام سینکأن یعنی بحرین والوں کے پاس تھا۔ میجر راورٹی کے مطابق جب کالاکوٹ سے اوپر توروالی اسلام سے پہلے اپنے آبائی مذہب کی پیروکاری کر رہے تھے، تو ان سے آخری جنگیں تیرات میں لڑی گئیں۔ وہ اس کو 17ویں صدی بتاتے ہیں۔ تیرات کے بعد مدین اور شاہ گام چلے گئے۔ مدین کو تو معروف ماہر بشریات سر ایرل سٹئین 1926ء میں بھی توروال کا گاؤں کہتا ہے اور لکھتا ہے کہ یہاں توروالی اور پشتو دونوں برابر برابر بولی جاتی ہیں۔ وہ مدین میں مساجد کی تصاویر دیتے ہیں، جن کے دروازوں پر نہایت خوب صورت کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ سٹئین گام/ بحرین کے طرزِ تعمیر سے بہت متاثر ہوجاتے ہیں، جہاں وہ 1926ء میں ریاستِ سوات کے مہمان بن کر آتے ہیں اور گرئیرسن کی کتاب کے لیے مواد اکٹھا کرتے ہیں، جس کو انھوں نے 1929ء میں (Torwali: A Dardic Language of Swat-Kohistan) کے نام سے چھاپی تھی۔
توروال میں ویش نظام کے آثار نہیں ملتے، تاہم بان/ بانڈہ جات میں ایسا کوئی نظام موجود تھا، جن کی تقسیم مختلف قبائل میں کی جاتی تھی۔ مغربی توروال یعنی دریائے سوات سے مغرب کی طرف علاقے کو چار بڑے قبائلی گروہ/ لت نرے، بیسے، کیو اور بھون میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر گروہ/ لت میں چھے ذیلی قبیلے یا گروہ شامل ہیں۔ مشرقی توروالی اُولال درہ سمیت گاؤں کی طرز پر یہ تقسیم موجود تھی اور اب بھی ہے۔ یہاں زیادہ تر مقامی طرز تقسیم دھمیی/ لوگے کا رواج ہے، جب کہ مغرب کی طرف یہ دؤتر کا نظام رائج ہے، جس کی بنیاد 16ویں صدی میں سوات میں یوسف زئی عالم شیخ ملی کے ویش نظام کے حساب کتاب دفتر لگتی ہے۔ دھمیی کا نظام زیادہ اشتراکی اور مقامی لگتا ہے۔ دؤتر کے حساب سے توروالی بلٹ میں دریائے سوات بھی ان چار قبائلی اتحادوں میں تقسیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دریا کنارے زمینوں پر تنازع ہے اور ان پر حکومت کا 2014ء کا قانون ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ اسی طرح لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
اس بلٹ میں سڑک بھی اسی طرح تقسیم تھی، بل کہ اس کو جس بیگار کی بنیاد پر بنایا گیا ہے، وہ بھی اہم ہے۔ بعد میں اسی سڑک کو ’’این ایچ اے‘‘ (NHA) کی ملکیت قرار دے کر اس کو N-95 کا حصہ قرار دیا گیا۔ چوں کہ اب سڑک ریاست یعنی پاکستان کی ملکیت ہے، لہٰذا دریا کناروں کے لیے بھی کوئی راہ نکالنی ہے۔ اس سلسلے میں کورٹ کیس کرکے کوئی مستقل حل نکالنا ضروری ہے، ورنہ بحرین تا کالام دریا کنارے آبادیوں پر حکومتی لاٹھی لٹکتی رہے گی۔ خیر یہ ضمنی باتیں ہیں۔
بحرین اب پوری توروالی برادری کی ملکیت ہے۔ یہ آباد بھی اسی طرح ہوا ہے۔ یہ مرکزی شہر بھی ہے اور تحصیلِ بحرین کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں توروالی برادری کا ہر قبیلہ آباد ہے، بل کہ اب تو پشاور اور دیگر علاقوں کے لوگ بھی آباد ہوچکے ہیں۔
عبد الجلیل خان کاکا نے اس عید کے دوسرے ہی دن ایک ملاقات میں بتایا کہ یہ پورا علاقہ بشمول چیل/بشیگرام درہ توروالیوں کا ہے۔ یہاں سب برابر ہیں اور اب وہ قبائلی تعصب باقی نہیں رہا۔ وہ خوش تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں یہ تعصب ختم ہوتے دیکھا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ نوجوان طبقہ اَب ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا اور جو ایسا کرے گا، وہ گذشتہ صدی میں رہ رہا ہوگا۔
وہ کہتے تھے کہ مدین، تیرات، کس جالبنڑ (کالام) اور شاہ گرام کے بارے میں تاریخ یہی ہے، تاہم اب تاریخ کو دہرایا نہیں جاسکتا۔ اَب آگے ہمارے لوگوں کو اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہے۔ دوسری اقوام کو تسلیم کیا جانا چاہے اور اسی طرح ان دوسری اقوام سے استدعا ہوگی کہ وہ بھی اپنے سے مختلف زبان اور ثقافت کے وجود کو تسلیم کرے۔
جلیل خان کاکا اس بات پر ضرور نالاں تھے کہ بعض لوگ مقامی سماجی اور سیاسی اونچ نیچ کی وجہ سے خود کو کسی بڑی قوم سے نتھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس کو شناخت کا بحران اور احساس کم تری کہتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے