کوانٹم فزکس اور کائنات کا راز

Blogger Tauseef Ahmad Khan

اس وقت سائنس دان دو اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے دن رات تحقیق میں مصروف ہیں کہ ہماری کائنات کی آخری حد کیا ہے…… یعنی، یہ کائنات کتنی وسیع ہے؟
دوسراسوال، مادے کا سب سے چھوٹا بنیادی عنصر کیا ہے، جو اس کی آخری حد ہو؟
پہلے سوال کے بارے میں فی الحال علم الفلکیات کے حوالے سے ہم اتنا جان چکے ہیں کہ کائنات لامحدود ہے، تو اس کی کوئی آخری حد نہیں، بل کہ یہ ہمیشہ پھیلتی رہے گی، لیکن ’’کوانٹم فزکس‘‘ اس سوال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ کوانٹم فزکس کے مطابق کائنات کی ابتدا میں ساری مادہ، توانائی، وقت اور جگہ ایک بہت زیادہ کثیف اور گرم نقطے میں موجود تھے۔ تقریباً 13.8 ارب سال پہلے اچانک ایک زبردست دھماکا ہوا، جسے فزکس کی اصطلاح میں ’’بگ بینگ‘‘ کہتے ہیں، جس سے مادہ، روشنی اور توانائی چاروں طرف پھیلنے لگے اور سپیس اور ٹائم کا تصور وجود میں آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایٹمز، کہکشائیں، ستارے اور سیارے بنے۔ اب تک جو کائنات ہم دیکھ سکتے ہیں، اسے ’’مشاہدہ شدہ کائنات‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا قطر تقریباً 93 بلین نوری سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں 93 ارب سال لگیں گے، حالاں کہ خود کائنات کی عمر تقریباً 13.8 ارب سال ہے۔
آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے مطابق، کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس کی کوئی آخری حد معلوم نہیں۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اگر کائنات مسلسل پھیلتی رہے گی، تو ایک نہ ایک دن اس کی رفتار سست ہو جائے گی اور کششِ ثقل کی وجہ سے یہ دوبارہ سکڑ سکتی ہے۔ کیوں کہ عمومی اضافیت کے مطابق، کششِ ثقل درحقیقت ’’اسپیس ٹائم‘‘ کی خمیدگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی جگہ زیادہ مادہ موجود ہو، تو اسپیس ٹائم زیادہ خمیدہ ہوگا۔ سورج کے گرد زمین کی حرکت کو ہم اس کی مثال کے طور پر لے سکتے ہیں۔
لیکن 1998ء میں ’’سپرنووا آبزرویشن‘‘ سے معلوم ہوا کہ کائنات کا پھیلاو کم ہونے کے بہ جائے تیز ہو رہا ہے اور اس پھیلاو میں کردار ’’ڈارک انرجی‘‘ کا ہے۔ یہ ’’اینٹی گریویٹی‘‘ کی طرح کام کرتا ہے، یعنی یہ کششِ ثقل کے برعکس چیزوں کو دھکیلتا ہے۔ اب اس معمے کو حل کرنے کے لیے آئن سٹائن نے ’’کاسمولوجیکل کانسٹنٹ‘‘ متعارف کرایا۔ یہ آئن سٹائن نے کائنات کو مستحکم رکھنے کے لیے متعارف کرایا تھا، تا کہ پھیلنے اور سکڑے کا معمہ حل ہو…… لیکن بعد میں جب ہبل نے دریافت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے، تو آئن سٹائن نے اسے اپنی سب سے بڑی غلطی کہا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ آئن سٹائن کی غلطی ہی اس معمے کا حل بنی، جس سے آئن سٹائن خود بھی واقف نہیں تھا۔ کیوں کہ 1998ء میں ڈارک انرجی کی دریافت کے بعد سائنس دانوں نے سمجھا کہ شاید آئن سٹائن کی کاسمولوجیکل کانسٹنٹ ہی وہ چیز ہے، جو ڈارک انرجی کو بیان کرتی ہے۔
اگر کاسمولوجیکل کانسٹنٹ ایک حقیقت ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ خلاخود ہی اپنے اندر خفیہ انرجی رکھتا ہے، جو کائنات کے پھیلاو کو تیز کر رہا ہے۔ کیوں کہ کوانٹم فزکس کے مطابق، خلا مکمل طور پر خالی نہیں ہوتا، بل کہ اس میں کوانٹم فلیکچویشنز ہوتی رہتی ہیں۔ ان فلیکچویشنز کے نتیجے میں ویکیوم انرجی پیدا ہوتی ہے…… لیکن اب بھی اس میں ایک معمہ حل ہونا باقی ہے۔ کیوں کہ ویکیوم انرجی اور مشاہداتی ڈارک انرجی میں بہت فرق ہے، اس لیے یہ معمہ حل ہونا ضروری ہے۔
لیکن اکثریت سائنس دان ڈارک انرجی کو ایک مستقل توانائی کے طور پر مانتے ہیں، جو خلا میں ہر جگہ یک ساں طور پر موجود ہے۔ جس کی وجہ سے کائنات ہمیشہ تیزی سے پھیلتی رہے گی اور شاید ایک دن اتنی بڑی ہو جائے کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوجائیں، جسے سائنس کی اطلاح میں ’’بگ رپ‘‘ کہتے ہیں۔ فی الحال کونٹ تھیوری اس نظریے کے لیے ایک نیا چیلنج بنی ہے، جس کے مطابق ڈارک انرجی ایک ڈائنامک فیلڈ ہے، جو وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ڈارک انرجی کی مقدار مستقل نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔
درجِ بالا ذکر کیے گئے تھیوریز سے تین امکانات واضع ہوگئے کہ کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی…… یا کائنات ایک حد تک پھیل کر واپس سکڑنا شروع کر دے گی، جسے بگ کرنچ کہتے ہیں یا کائنات ایک حد پر پہنچ کر رک جائے گی۔
پہلی صورت میں اگر کائنات مسلسل پھیلتی رہی، تو کائنات ’’بگ فریز‘‘ یعنی حرارت کی موت اس کا اختتام ہوجائے گا، جہاں ستارے بجھ جائیں گے اور کائنات ایک ٹھنڈے، تاریک اور بے جان خلا میں تبدیل ہو جائے گی۔
دوسری صورت میں، تمام کہکشائیں، ستارے اور دیکر فلکیاتی اجزا ایک واحد نقطے میں تبدیل ہوکر مادہ اور توانائی ایک انتہائی کثیف اور گرم حالت میں مجتمع ہوجائیں گے۔ اس صورتِ حال میں تمام فزیکل قوانین اور وقت کا تصور یک سر بدل جائے گا۔
اب ہر ایک تھیوری کے سپورٹ میں مزید تھیوریز جنم لے رہی ہیں اور ہر تھیوری اپنا ایک منفرد اور دل چسپ پہلو رکھتی ہے۔ ان سب تھیوریز کے برعکس ہولوگرافک اُصول زبردست طریقے سے کوانٹم فزکس اور جنرل ریلیٹویٹی کے مسائل کو حل کرتے ہوئے ہمیں کائنات کی حقیقت کے بارے میں ایک واضح ماڈل پیش کرتی ہے، جو بہ ذاتِ خود میرے لیے دل چسپی کا حامل ہے۔ اس پر میں آئندہ تحریر میں تفصیل سے لکھوں گا۔ اس کے بعد، دوسرے سوالکہ مادے کا سب سے چھوٹا بنیادی عنصر کیا ہے پر تمام جدید نظریات اور کچھ دلچسپ حقائق قارئین کے سامنے پیش کروں گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے