مینگورہ شہر کو ٹٹول کر دیکھیں، تو ہمیں ایسے لوگوں کی کمی نظر نہیں آئے گی، جنھوں نے اپنی محنت، لگن اور کاوش سے اعلا مقام حاصل کیا اور پورے معاشرے کے لیے مثال بنے۔ ملابابا روڈ اور خود ملابابا کئی محلوں پر مشتمل ایک بڑا علاقہ ہے۔ یہیں پر ایک محلہ ’’محمد رحیم ٹھیکے دار‘‘ بھی ہے۔
جن لوگوں نے محمد رحیم ٹھیکے دار صاحب کو دیکھا ہے یا جانتے ہیں، اُن کے لیے شاید کوئی دقت نہ ہو، مگر ہماری نئی نسل سے ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کا تعارف بہت ضروری ہے۔
دراصل محمد رحیم ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کی سخاوت اور صدقات و خیرات دینے کی روایت مینگورہ شہر میں ایک مثال کی طرح قائم ہے۔ بیواؤں اور یتیموں کی کفالت اور غریب پروری کا ذکر کریں، تو اُن کا نام دولت مند لوگوں میں ’’ٹرینڈ سیٹرز‘‘ میں شمار ہوتا ہے۔
ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کے بارے میں کچھ پُراسراریت، کچھ روایات اور کچھ قصے مشہور ہیں۔ جیسا کہ وہ 14 دن میں مال دار ہوئے۔ اس روایت میں کتنی صداقت اور کتنی حقیقت ہے؟ اس سے قطع نظر اُن کی زندگی کے چند پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) بنیادی طور پر بلوگرام کے رہنے والے تھے۔ تعلیم حاصل نہیں کر پائے، مگر ہمیشہ سے علم دوست تھے۔ روزانہ اخبارات منگواتے اور اُن کو پڑھنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔ رات کو اُن کے حجرے میں کچھ نوجوان جو پڑھنے کے شوقین ہوتے تھے، اُن اخبارات کو لے ساتھ جاتے تھے۔
ابتدائی دور میں محمد رحیم ٹھیکے دار (مرحوم)، شیر زادہ ٹھیکے دار (مرحوم) کے ساتھ ملازمت کرتے تھے۔ ایک طرح سے اُن کے دست راست تھے اور اُن کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔
شیرزادہ ٹھیکے دار محلہ امان اللہ خان کے پرانے ٹھیکے دار اور کاروباری شخصیت تھے۔ محمد رحیم ٹھیکے دار (مرحوم) کسی وجہ سے اُن سے ناراض ہوئے اور میاں سید لالا کے ساتھ ملازمت اختیار کی۔
محمد رحیم ٹھیکے دار (مرحوم) بہت وجیہہ اور بارُعب انسان تھے۔ گو کہ پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے وہ قابلیت دی تھی کہ شکل و صورت یا بات کرنے کے انداز سے بالکل پتا نہ چلتا تھا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔
ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کے لیے لالا کے ساتھ ملازمت کرنا بھی آسان کام نہیں تھا۔ ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ تھی ہی، ایک دن حوصلے بھی جواب دے گئے، جب لالا نے بغیر کسی وجہ کے کل سے نہ آنے کا فیصلہ سنا دیا۔ وہ بہت بھاری دن تھا۔ قریبی دوستوں میاں جی (میاں گانو چم نشاط چوک) جو سید خاندان کے خانوادے تھے اور بونیرے جو اُن کے ہم کار تھے اور ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کے ساتھ اس سلوک پر سخت مایوس ہوئے۔ ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کو تقریباً غصے کی حالت میں کہا کہ ’’تم کام نہیں کروگے، تو ہم بھی کام چھوڑ دیں گے۔‘‘
محمد رحیم صاحب (مرحوم) نے جواباً پوچھا: ’’نہیں کریں گے، تو کیا کریں گے؟‘‘
میاں جی نے اُن کی پیٹھ تھپکاتے ہوئے کہا: ’’جب ساری دنیا کام کرسکتی ہے، تو محمد رحیم! تمھارے بھی دو ہاتھ، دو پاؤں، دو آنکھیں اور دو کان ہیں، تو تم بھی کرسکتے ہو!‘‘
شاید 14 دن میں دولت مند بننے کی کہانی اس وجہ سے مشہور ہے۔
کہتے ہیں کہ محمد رحیم ٹھیکے دار (مرحوم) نے ٹرک قرض لیے، ڈیزل قرض لیا، جنگل سے لکڑیاں بھی قرض ہی اٹھائیں اور 18 ٹرک لے کر پنجاب گئے۔ واپس آکر گھر نہیں گئے اور سب کو پیسے ادا کیے…… لیکن تب وہ ’’سیٹھ محمد رحیم ٹھیکے دار‘‘ بن چکے تھے۔
ٹمبر مارکیٹ میں رہتے ہوئے ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) نے اچھا خاصا نام کمایا۔ اُن کو ٹرک دینے، ٹرکوں کے لیے قرض ایندھن دینے، ٹمبر مارکیٹ سے قرض لکڑی لینے اور پہلے سے متعارف پنجاب مارکیٹ میں اُن کو بیچنے میں ذرا برابر مشکل پیش نہیں آئی۔ میاں جی اور بونیرے ماما نے حوصلہ بھی دیا، ساتھ بھی دیا اور دوستی بھی ڈٹ کر نبھائی۔
آخری وقت تک دونوں مذکورہ دونوں صاحبان ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) کے دست و بازو بنے رہے۔ ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) نے ’’رِسک‘‘ لیا اور پھر اُن کے لیے راستے کھلتے چلے گئے۔
کنسٹرکشن میں گئے، تو ملاکنڈ پہاڑی جیسے مشکل پراجیکٹ بھی اُن کے حصے میں آیا۔ رئیل اسٹیٹ میں ہاتھ ڈالا، تو پہلی دفعہ مینگورہ میں کرائے کے لیے اُس وقت کے جدید، دل کش، اُس وقت کی تقریباً سبھی سہولتوں سے مزین کوارٹر اور مکانات تعمیر کیے۔ دولت مند ہوکر بھی غربت کے دن یاد رکھے۔ غریب پروری کو شیوا بنائے رکھا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ٹھیکے دار صاحب (مرحوم) پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر بہ آسانی انگریزی میں دستخط کرلیتے۔ سلیقہ مندی سے گفت گو کرتے۔ دورانِ گفت گو انگریزی اور اُردو الفاظ اس انداز سے استعمال کرتے کہ کسی کو احساس تک نہ ہوتا کہ وہ ناخواندہ ہیں۔
تجربے نے دنیا کی پہچان کرا دی تھی۔ بلا کے مردم شناس تھے۔ اُن میں یہ خوبی بھی تھی کہ جس سے بھی صرف ایک دفعہ ملاقات کرلیتے، تو وہ ملاقات سیاق وسِباق کے ساتھ یاد رہتی۔
آگے جاکر پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا۔ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے تھے۔ اُن کے قریبی دوست حاجی فرید میرخانخیل پیپلز پارٹی کے سرگرم اور بانی اراکین میں سے تھے۔ سیاسی حریف بھی تھے، مگر تعلق اس قدر قریبی تھا کہ روز ایک ساتھ گپ شپ لگاتے۔ ان کے ڈیرے پر لوگوں کا رش لگا رہتا اور جو بھی وہاں ہوتا، اپنائیت کے احساس کے ساتھ ہوتا۔
ملا بابا میں ’’مسجد محمد رحیم ٹھیکے دار صاحب‘‘، ’’محلہ محمد رحیم ٹھیکے دار صاحب‘‘ اور ’’حجرہ محمد رحیم ٹھیکے دار صاحب‘‘ آج بھی اُن کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
