ترجمہ: ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی
’’دو نیم اپریل‘‘ یا ’’شکستہ اپریل‘‘ (Broken April) گزرے وقت کی دل کشی لیے ایک ذہن پر سوار ہو جانے والی کہانی ہے۔
بہت کم ایسے ناول ہوتے ہیں، جو اتنے سادہ، لیکن پُراثر انداز میں لکھے گئے ہوں۔ اس ناول میں پلاٹ، جو بہ ذاتِ خود اہمیت کا حامل ہے، سے زیادہ ناول کا وہ ماحول ہے جو کار درے نے دوبارہ زندہ کیا ہے۔
دراصل مَیں نے محسوس کیا کہ دھند اور ٹھنڈ،اندھیری راتوں اور باد زدہ قدرتی مناظر کے درمیان ناول ایک غیر معمولی شدت کو پیش کرتا ہے، ایک قاری کی حیثیت سے جس کی توجہ بہک سکتی ہے۔
’’بروکن اپریل‘‘ میرے لیے ایک انوکھا معاملہ تھا۔اس کتاب نے صفحۂ اوّل سے صفحۂ آخر تک میری توجہ مضبوطی سے اس طرح جکڑے رکھی تھی کہ کہیں بھی اس کی گرفت ڈھلی نہیں ہو پائی۔
مَیں ویسے البانیہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، سوائے اس کے کہ اٹلی والوں نے ایک بے کار اور جارحانہ جنگ کی (’’ہم تو البانیہ کو ڈھیر کردیں گے!‘‘ 1939ء میں مسولینی بھونکتا رہا تھا۔)
نیز یہ کہ اس ملک پر دنیا کے انتہائی بے حس حکم ران پاگل کمیونسٹوں سے بھی کم تر’’این ویر ہوجا‘‘ (Enver Hoxha) نے حکومت کی۔
اطالوی باشندوں کی ایک قابلِ ذکر اکثریت کا یقین تھا کہ البانیہ خدا کا ایک قہر زدہ، متروکہ ملک ہے، جو بدمعاشوں، دلالوں، فاحشاؤں اور نقلی یونیورسٹیوں، جہاں نکمے سیاست داں جعلی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، سے آباد ہے۔
اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ہجرت کی لہر کے تحت البانی باشندوں کا البانیہ کے ساحلوں سے 1990ء میں اٹلی پہنچنا، اُن کے لیے کوئی فائدہ مند ثابت نہیں ہوا، جیسا کہ انھوں نے سمجھا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ کچھ البانی باشندے اٹلی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے،لیکن یہ برے لوگ ہوتے ہیں، جو خبروں کا حصہ بنا کرتے ہیں۔
اسی طرح کے بدنامی کے حالات سے رومانی باشندے (Romanians) بھی گزر چکے ہیں، جب وہ اٹلی آئے تھے اور انھیں خبطِ برتری کا شکار (megalomaniac) حکم ران کی حکم رانی قبول کرنی پڑی۔ وہیں پر ہزاروں اچھے، ایمان دار، محنتی اور بامروت البانی مہاجرین، ’’آلپس‘‘ (Alps) اور ’’سیسیلی‘‘ (Sicily) کے درمیان موجود ہیں…… لیکن یہ تو صاف طور پر عیاں ہے، ہے نا……؟
ساتھ ہی ’’بروکن اپریل‘‘ البانیہ کی پس ماندگی اور ان کے تہذیبی ورثے کے تناظر میں ایک قدیم قانون کا تعارف کرواتا ہے، جو اُتنا ہی حیرت انگیز اور خوف ناک ہے، جس کی رو سے تمام مباحث اور تنازعات، عام رہایشی علاقوں سے دور البانی سطح مرتفع پر طے کیے جاتے ہیں۔
ایک ایسا ضابطۂ قانون جس کے تحت خاندانی جھگڑوں کے ذریعے انتقام لینے کا وحشیانہ اور سخت اُصول مرکزی نکتہ ہو، وہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ بہت حد تک اسی طرح جنوبی اٹلی کے کچھ حصوں اور ’’سارڈینیا‘‘ (Sardinia) میں جھگڑوں کو نپٹایا جاتا ہے۔
البانیائی قانون، البتہ اپنی بہتر بناوٹ رکھتا ہے، جس کی وجہ سے قومی باشندوں نے اسے زیادہ سنجیدگی سے اپنایا، بہ نسبت ان کے ہم منصب اٹلی کے باشندوں کے۔
یہ ناول (بروکن اپریل) اپنے اُصولوں کے مطابق نہ صرف قانون اور وہاں کے لوگ (اکثر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ، بل کہ البانی پہاڑی باشندوں کی ایک بہترین عمودی تراش بھی پیش کرتا ہے۔ یہ لوگ جنھوں نے اپنی عادات و اطوار کو کھوئے بغیر اور بلندیوں کے لیے اپنی دل کشی کو قائم رکھتے ہوئے، چرچ کا بھی استقبال کیا اور اسلام کو بھی اپنایا۔
ناول ’’بروکن اپریل‘‘ کی انفرادیت میں واضح قسم کی خوب صورتی، ایک ایسی خصوصیت ہے جو پلاٹ کی ہلکی سی مایوسی، اور ایک بہتر اختتام کی کمی کا ازالہ کر دیتی ہے۔
ویسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ناول کو کون سی خصوصیت ایک اچھا ناول بناتی ہے؟ وہ اس کی کہانی کا بیان کرنا نہیں، بل کہ وہ جگہ جہاں کہانی واقع ہو تی ہے۔ یہ اسماعیل کادارے کی پہلی کتاب ہے، جو مَیں نے پڑھی اور شاید یہ ایک طویل سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ آج ہمارے ساتھ ایک ایسا مصنف (اسماعیل کاردارے) موجود ہے، جس کے پاس قطعی طور پر ضرور کچھ کہنے کے لیے ہے اور اس بارے میں کہیں نہ کہیں ضرور کہا جائے۔ مَیں اس بارے میں زیادہ سے زیادہ سننا چاہوں گا۔
(نوٹ:۔ یہ تحریر دراصل "Lorenzo Berardy” کے اُس تبصرے کا اُردو ترجمہ ہے، جو اُنھوں نے 8 جولائی 2012ء کو "Goodreads” میں کیا تھا، راقم۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
