(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
وہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کی ماں کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا اور اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی۔ کہا جاتا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں اس کے ساتھ بہت برا سلوک کرتی۔ اسے سونے کے لیے چارپائی تک بھی نہ دی جاتی۔ باپ نے بھی اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ لڑکے سے بار بار کہتا کہ وہ سکول چھوڑ دے اور کچھ پیسے کمائے، لیکن وہ بہت ذہین تھا اور اس کے اساتذہ ہر ممکن طریقے سے اس کی حمایت کر رہے تھے۔
وہ بہت خوب صورت بھی تھا اور یہی بات اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ اس کا ایک کزن سکول جاتے وقت اسے تنگ کرتا۔ وہ روز اس سے اپنی ناپاک خواہشات پوری کرنے کا تقاضا کرتا، لیکن وہ ہمیشہ انکار کرتا۔ اس کا کزن بھی باز نہیں آتا اور اسے ستاتا رہتا۔ کوئی نہیں تھا کہ اس معاملے میں اس کی مدد کرسکے۔ وہ اپنے اساتذہ کو نہیں بتاسکتا تھا۔ کیوں کہ کزن نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے انہیں بتایا، تو وہ اسے مار دے گا۔ کوئی اور چارہ نہ پاکر، اس نے اپنے باپ کو ساری کہانی بتا دی۔ اس کے باپ نے اسے ایک بڑا چاقو دیا اور کہا کہ اگر وہ لڑکا دوبارہ اس کو تنگ کرے یا اس پر دست درازی کی کوشش کرے، تو اسے مار دے۔
اگلے دن، سکول سے گھر جاتے ہوئے، کزن نے اسے ہاتھ سے پکڑلیا اور اپنی مذموم خواہش کو دہرایا۔ اس نے چاقو نکالا اور پوری طاقت سے اس پر وار کیا۔ چاقو اس کے پسلیوں میں گھس گیا اور اس لڑکے کے دل کو چیر دیا۔ وہ زمین پر گر کر موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
وہ لڑکا اپنے گھر بھاگا اور اپنے باپ کو واقعے کے بارے میں بتایا۔ اس نے غصے میں آ کر پوچھا کہ تم نے اسے قتل کیوں کیا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ آپ نے مجھے چاقو دیا تھا اور کہا تھا کہ لڑکے کو مار دو۔ وہ دونوں نزدیکی چوکی (قلعے) کی طرف بھاگے، تاکہ مقتول کے خاندان کی مخالفت سے بچ سکیں۔ قلعے کے قلعہ داروں نے انھیں اپنی حفاظت میں لے لیا اور انھیں سیدو شریف لے گئے۔ نچلی عدالت نے انھیں مرکزی جیل بھیجنے کا حکم دیا اور انھیں اگلے دن سوات کے حکم ران کے سامنے پیش کرنے کا کہا، کیوں کہ ایسے کیسز صرف انھیں کے سامنے پیش کیے جاتے تھے۔
اسی رات، بے حس باپ نے چھوٹے لڑکے کو بہت پیٹا۔ اسے رنج تھا کہ اس کے جرم کی وجہ سے اسے جیل میں رات گزارنی پڑی۔ لڑکا روتا ہوا بولا: ’’بابا، آپ نے مجھے اپنے کزن کو مارنے کے لیے چاقو دیا۔ مجھے جو کچھ بھی جھیلنا ہے، جھیلوں گا، لیکن آپ مجھے اتنی بے رحمی سے کیوں پیٹ رہے ہیں؟‘‘
اگلے دن، انھیں والی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ اس نازک سے خوب صورت بچے کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس کے اعترافی بیان کے بعد، والی صاحب نے اس کے باپ سے کہا کہ وہ اپنے گھر جائے اور مقتول کے والد سے گاؤں کے بزرگوں کے ذریعے صلح کرنے کی کوشش کرے۔ والی صاحب نے کم عمر لڑکے کی زندگی بچانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی۔ لیکن لڑکے کا باپ دوسرے فریق کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔ کچھ اندرونی ذرائع نے کہا کہ والد اپنے بیٹے کی زندگی بچانے میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتا تھا۔ کیوں کہ اس کی دوسری بیوی اس تنازع کو حل کرانا نہیں چاہتی تھی۔
بعد میں ہونے والے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ اس کے باپ کو اپنے بیٹے کو بچانے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ جب اس کو سیدو شریف آنے کے لیے کہا گیا، تو اس نے پہنچنے میں دیر کر دی اور جب وہ وہاں پہنچا، تو اس کا بیٹا پہلے ہی اپنے چچا کے ہاتھوں مارا جا چکا تھا اور اس کی میت رائل قبرستان کے دروازے کے قریب ایک چارپائی پر پڑی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
