جمعہ 7 مارچ کو جب مَیں یہ سطور لکھ رہا تھا، تو سامنے ایک سرکاری نوٹیفکیشن پڑا تھا۔ یہ نوٹیفکیشن دراصل ایک ’’تھریٹ الرٹ‘‘ تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’دو موٹر گاڑیاں کوئٹہ شہر میں داخل ہوچکی ہیں، جو کسی بھی سرکاری عمارت کو نشانہ بناسکتی ہیں۔ لہٰذا متعلقہ ادارے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات یقینی بنائیں۔‘‘
ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ اس قسم کے معاملات اب اس ملک میں عام ہیں…… لیکن یہ عام معاملات بھی کبھی کبھی ’’خاص‘‘ بن جاتے ہیں…… اور خاص اس لیے کہ ماہِ رمضان کا مقدس مہینا جاری ہے۔ اگر اس میں بے گناہوں کا خون بہتا ہے، تو عام معاملہ خاص کیوں نہیں بنے گا؟
گذشتہ ہفتے بنوں کینٹ پر حملے میں جو بزرگ، بچے اور خواتین مرے، آخر اُن کا گناہ کیا تھا؟ اُن کی خطا صرف یہی تھی کہ وہ اس ملک کے بدقسمت باشندے تھے؟
بنوں کے لرزہ خیز واقعے میں ایک ویڈیو ایسی بھی دیکھنے کو ملی کہ ایک گھرمیں افطار کا سامان دسترخوان پر پڑا ہے، جب کہ اہلِ مکان سب کے سب ہسپتال میں پہنچائے گئے تھے، جن میں سے اکثریت شہید اور باقی زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے پہلے نوشہرہ میں جامعۂ حقانیہ میں جمعہ کے دن جو کچھ ہوا، کچھ نادانوں نے اُس کو الگ رنگ دینے کی کوشش کی، جو انتہائی بھونڈی حرکت تھی۔ کیوں کہ صرف انسانیت کے لیے اگر سوچا جائے، تو کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ غیر مسلح انسان کو بغیر کسی جرم، ثبوت یا عدالت کے قتل کرے۔ کیا مہذب معاشروں میں ایسا تصور ممکن ہے؟
نظریات مختلف ہوسکتے ہیں، اختلافات بھی ممکن ہیں، مگراس کے باعث کسی کو مارنا…… یہ کیوں کر درست ہوسکتاہے؟ پھر مسجد میں پہنچ کرخود کش کرنا کسی مسلمان کا کام کیسے ہوسکتا ہے، یا بے گناہ عام لوگوں کونشانہ بنانا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟
قانون نافذ کرنے والوں جوانوں کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔ روز بہ روز نوخیز سپاہی وطن کی حفاظت کے لیے جان دے رہے ہیں۔ بلوچستان سے خیبر پختونخوا تک ان فوجیوں کا قصور صرف اتنا سا ہے کہ وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ کوئی بہ جا طور پر کَہ سکتا ہے کہ یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، مگر عام سپاہی جس نے وطن کی حفاظت کا حلف لیا ہوتا ہے، وہ سپاہی بلوچستان کے صحراؤں اور سخت موسمی حالات میں ہو، یا خبیر پختون خوا کے پہاڑوں میں سرحد پر کھڑا ہوکر ملکی حفاظت کرتا ہے اور دشمن سے فائرنگ میں شہید ہوجاتا ہے۔
خوں ریزی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔ اختتام کب ہوگا؟ یہ بھی معلوم نہیں۔
اسلام آباد میں موجود ایک تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال ڈیڑھ سال میں دہشت گردی میں 70 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص کر بلوچستان میں ان واقعات میں اضافہ 65 فی صد سے زیادہ بتایا جاتاہے۔
اسی طرح ایک عالمی سروے میں پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے دوسرے نمبر پر آگیا ہے، جب کہ اسرائیل جیسی ظالم ریاست دوسرے سے چھٹے نمبر پر چلی گئی ہے۔
دہشت گردی کی اس جنگ میں 80 ہزار سے زیادہ اہلِ وطن نے جانوں کی قربانی دی ہے۔ معاشی اور سیاسی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ لاکھوں لوگ امن کی خاطر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔ سالوں پر سال گزر گئے، کئی علاقوں مثلاً: تیراہ وغیرہ میں ابھی تک عوام کی واپسی ممکن نہ ہوسکی۔ باوجود اس کے فوجی جوانوں کی شہادتیں جاری ہیں۔ یہ صورتِ حال عام نہیں۔ یہ ایک غیر علانیہ جنگ ہے، جو اس ملک پر مسلط ہے۔
پہلے تو یہ تھا کہ ہمارے پڑوس میں روس آیا تھا، یا ’’بلایا گیا تھا‘‘…… پھر امریکہ وارد ہوا، تو بدامنی کا ہونا اس علاقے میں فطری امر تھا…… مگر اب جب امریکہ، جسے گئے ہوئے بھی کئی سال گزر گئے ہیں، نیز پڑوس میں مسلط حکم رانوں کا دعوا ہے کہ ہم نے بھی امن قائم کردیا ہے، ایسے میں ہمارے ہاں دہشت گردی کے واقعات میں پڑوس کے لوگوں کانکلنا حیران کن اور افسوس ناک امر ہے۔
امن جو پوری دنیا کی ضرورت ہے۔ اگر کسی ایک ملک میں امن نہ ہو، تو پورا علاقہ بدامنی کے سائے میں رہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک ’’گرینڈ ڈائیلاگ‘‘ ہو جس میں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں جاری بدامنی کا جائزہ لیا جائے اور اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ کیوں کہ دونوں مقامات پر دہشت گردانہ واقعات کی وجوہات الگ ہیں، ان کی نوعیت الگ ہے۔ اس لیے حل بھی الگ الگ ہوگا۔
جو بھی ہو، مگر اب یہ کشت و خون کا بازار بند ہونا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
