میرا ٹرمپ زندہ باد، تیرا ٹرمپ مردہ باد

Blogger Advocate Muhammad Riaz

امریکی صدر ٹرمپ نے پارلیمنٹ سے خطاب میں امریکہ کو مطلوب ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ امریکہ سمیت پوری دنیا بالخصوص پاکستانیوں کے لیے بھی یہ حیران کن خبر تھی۔ امریکی صدر کے انکشاف پر حسبِ روایت طرفین سے ردِ عمل، تبصرے اور تجزیے کیے گئے۔ پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف نے ردِ عمل دیتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے اور سراہنے پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے عزم، جد و جہد اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔
یاد رہے کہ امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے اور ٹرمپ کے پارلیمنٹ خطاب سے چند لمحے پہلے تک تحریکِ انصاف کے حامیوں کے نزدیک ٹرمپ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھے۔ ان کے نزدیک ٹرمپ ان کے لیڈر عمران خان کے انتہائی قریبی دوست ہیں اورپوری دنیا میں ٹرمپ ہی ایسی واحد شخصیت ہیں، جو عمران خان کو قید و بند کی صعوبتوں سے نکال باہر کریں گے۔
تحریکِ انصاف کے حامی صحافیوں، اینکر اور یوٹیوبروں نے گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ دعوے کیے تھے کہ ٹرمپ صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطاب میں پاکستانی حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لیے حکم نامہ جاری فرمائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ میں مقیم تحریکِ انصاف کے حامیوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
دوسری جانب ان کے سیاسی حریف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حمایتی افراد نے ٹرمپ کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کیے۔ جب پی ٹی آئی حامیوں کو یہ طعنہ دیا جاتا کہ آپ کل تک ’’امریکہ مردہ باد‘‘ اور ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کے نعرے بلند کرتے تھے اور آج انھی امریکی حکام سے اُمیدیں وابستہ کیوں کر رہے ہیں، تو ان کا سادہ ساجواب ہوتا تھا کہ عمران خان کو امریکہ نے اقتدار سے باہر کیا ہے۔ اب امریکہ ہی خان صاحب کو واپس اقتدار میں لائے گا…… یعنی ایک طرف نام نہاد امریکی مداخلت مردہ باد دوسری جانب امریکی مداخلت زندہ باد۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پی ٹی آئی قیادت نے جس طرز پر ٹرمپ کی انتخابی مہم چلائی اور ٹرمپ کے حامی سیاست دانوں سے عمران خان کے حق میں ٹویٹ کروائے اور پھر جس طرز پر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ان بیانات کا بیانیہ بنایا کہ کسی بھی وقت ٹرمپ بہادر صدر زرداری یا وزیرِ اعظم شہباز شریف کو فون کرے گا اور حکومت کو اڈیالہ جیل کے دروازے کھول کر عمران خان کو پھولوں کے ہار پہنا کر رہاکرناپڑے گا۔ یقینی طور پر پاکستانی حکومت شدید دباو اور سہمی سہمی نظر آرہی تھی۔
اب امریکی پارلیمنٹ سے ٹرمپ کے خطاب نے 180 زاویہ سے معروضی حالات بدل کر رکھ دیے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے حامی خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے لڈیاں اور دھمالیں ڈالتے دِکھائی دے رہے ہیں، بالکل ایسے ہی جس طرح عمران خان اور ٹرمپ کی ملاقات کے بعد تحریکِ انصاف کے حامیوں نے نچ نچ کے گھنگروں توڑ ڈالے تھے۔
ٹرمپ خطاب کے بعد تحریکِ انصاف کے حامی ’’یوٹرن‘‘ مارتے ہوئے ٹرمپ کوگالیوں سے نوازتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ مَیں یہ بات پورے یقین سے کَہ سکتا ہوں کہ آج اگر ٹرمپ سرکار عمران خان کے حق میں چھوٹا سا بیان جاری کردے، تو طرفین کی سیاسی جماعتوں نے 180 ڈگری زاویہ کے یوٹرن مارلینے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دینا ہے، جب کہ پی ٹی آئی نے امریکہ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار قرار دے دینا ہے اور ٹرمپ کو نوبل پرائز کے لیے نام زد کرنے کے لیے مہم چلا دینی ہے۔
کل تک پی ٹی آئی حامیوں کو ٹرمپ اپنا اپنا لگتا تھا اور آج مسلم لیگ ن والوں کے لیے ٹرمپ میرا جگر میرا جانی بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہم پاکستانی احساس کم تری کا شکار ہیں اور کیوں نہ ہوں، جب پاکستانیوں کی معیشت کا دار و مداد ہی امریکہ، یورپ اور مالیاتی اداروں کی مرہونِ منت ہے۔
ویسے ہم پاکستانی بھی کتنے خودغرض ہیں کہ امریکہ مردہ باد نعرہ بھی لگاتے ہیں اور امریکی ویزہ حصول کے لیے اپنا تن من دھن لٹانے سے دریغ بھی نہیں کرتے۔ ہم پاکستانی یو ایس ایڈ سے اربوں روپیا بھی ڈکارلیتے ہیں اورامریکہ مردہ باد کا نعرہ بھی جوش و خروش سے مارلیتے ہیں۔ ہم پاکستانی دنیائے اسلام اور بالخصوص پاکستان کے تمام مسائل کا ذمے دار امریکہ بہادر کو قرار دیتے ہیں، لیکن آج اگر امریکی ریاست ویزہ لاٹری کے ذریعے ایک کروڑ افراد کوامریکی شہریت دینے کا اعلان کردے، تو 25 کروڑ پاکستانیوں میں کوئی ایسا نہیں ہوگا، جو امریکی ویزہ حصول کے لیے ویزہ لاٹری میں اپنے نام کا اندراج نہ کروائے گا۔
ہم پاکستانیوں کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ امریکہ بہادر کوریاستِ پاکستان یاکسی پاکستانی فرد سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے نزدیک صرف اور صرف امریکی مفاد عزیز ہے۔ امریکہ کو اپنا مفاد عزیز ہو، تو اس کے لیے غیر منتخب غیر جمہوری ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف بھی بہت عزیز ہوتے ہیں، لیکن ان کے مفاد کے برخلاف چلنے والے منتخب نمایندے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کسی صورت پسندیدہ نہیں ہوسکتے۔ بہ ہرحال آج کے معروضی حالات میں ہم پاکستانیوں کو اپنا اپنا ٹرمپ عزیز ہے، جوان کے حق اور مفاد میں بیان جاری کردے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے