انسانی تاریخ میں لفظ کی ایجاد کے بعد شاہوں، بادشاہوں اور عام انسانوں میں رابطہ کا سلسلہ چل نکلا، تو ہدہد سے لے کے کبوتر تک اور قاصد سے لے کے خصوصی ایلچی تک نے انسانوں کے درمیان اس رابطے کو توڑنے نہیں دیا۔ خط و کتابت سے ٹیلی فون تک کا سفر طے ہوا اور پھر موبائل فون نے یہ سفر مزید آسان اور تیز کردیا۔ 21ویں صدی میں سماجی رابطے کے مزید ذرائع جیسے ’’فیس بک‘‘، ’’انسٹاگرام‘‘ اور ’’ایکس‘‘ (سابقہ نام ٹوئٹر) نے مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ۔ اس انقلاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسانوں کا ایک دوسرے سے رابطہ کرنا نہایت آسان ہوگیا۔ وہ ایک دوسرے سے دور ہوکے بھی نزدیک آگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر کسی کو وقت گزاری کے لیے اچھا سامان ہاتھ آگیا اور سماجی رابطے کے ان ذرائع نے ہر کسی کو طاقت ور بنا دیا۔
اب ہر طرح کی معلومات تک رسائی اتنی آسان ہوگئی ہے کہ ’’یووال نواح ہراری‘‘اسے خطرے کی گھنٹی قرار دے چکا ہے۔ وہ اپنی کتاب”21 lessons for 21st century” کی شروعات میں یہ جملہ لکھتے ہیں کہ "In a world deluged by irrelevant information, clarity is power ".
جیسا کہ ذکر کرچکا ہوں کہ سوشل میڈیا نے ہر کسی کو طاقت ور بنادیا ہے، یعنی ہر کسی کے ہاتھ میں بندوق تھما دی ہے، تو اب ہر شخص کی اپنی مرضی کہ وہ اسے جس پر بھی چاہے تھان لے۔ اب ہر کوئی اپنی مرضی کی خبر کو سوشل میڈیا پر ڈال کے عدالت لگالیتا ہے اور لوگوں کو اکٹھا کرکے کسی بے گناہ کو مجرم قرار دے کر اُسے سزا سنا دیتا ہے۔
پروفیسر یونس خان کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا جب کسی ’’مخصوص ٹولے‘‘ کی خواہش کو خبر بنا کے ’’تورگل‘‘ نامی فیس بک اکاؤنٹ نے پروفیسر محترم کی کردار کشی کی اور اُن پر الزامات لگا کے اُن کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
’’تور گل‘‘ نے پروفیسر یونس خان جیسے شریف اور محترم انسان پر کیچڑ اچھال کے اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ’’تورگل‘‘ ایک بھی الزام پروفیسرمحترم پر ثابت نہیں کرسکتا۔ بس وہ (تور گل) مفت میں ’’سازشی ٹولے‘‘ کا آلۂ کار بن گیا، لیکن اب ’’تور گل‘‘ کی کارستانی کا خمیازہ پروفیسر محترم یونس خان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘کے مصداق عوام کو لطف کا سامان میسر ہوا ہے، لیکن دوسری طرف پروفیسر محترم کے چاہنے والوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑ رہی ہے اور اُنھوں پروفیسر صاحب کی حمایت میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کردیا ہے، جو قابلِ ستایش ہے۔
پروفیسر یونس خان کی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ پولی ٹیکل سائنس کا شعبہ مادرِ علمی جہانزیب کالج کے نمایاں شعبوں میں سے ایک ہے۔ یہ انھی کی سرپرستی، محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ پولی ٹیکل سائنس کے بیش تر طالبِ علم جذبات کے بہ جائے دلیل سے بات کرنے کے قائل ہیں۔ وہ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت شایستگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اُنھیں پتا ہوتا ہے کہ کس کے سامنے کب، کیسے اور کتنا بولنا ہے؟
پروفیسر یونس خان کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والوں کا ایک ایک لفظ ’’تور گل‘‘ کے لیے سبق ہے، جسے اتنی زحمت تک نہیں ہوئی کہ یہ تحقیق کرسکے کہ جس کے خلاف وہ زہریلی پوسٹ لگا رہا ہے، وہ مادرِ علمی میں ہر دل عزیز شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بیش تر طلبہ کے "Mentor” ہیں۔ بہت سے طالب علموں کے لیے وہ مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ پڑھانے کے ساتھ طلبہ کی رہ نمائی اور کونسلنگ بھی کرتے ہیں، تاکہ وہ اس قابل بن جائیں کہ زندگی کے مسائل کا سامنا کرسکیں۔
الحمدللہ، مَیں خود 4 سال تک پروفیسر محترم کا شاگرد رہا ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ وہ میرے اُستاد ہیں اور مجھے بولنے اور لکھنے کے قابل بنانے میں اُن کی محنت اور حوصلہ افزائی کا بڑا ہاتھ ہے۔ مجھ سمیت اُن کے ہر شاگرد کی شخصیت سازی میں اُن کا بڑا کردار ہے۔
تور گل کو چاہیے کہ وہ معافی مانگ کر پروفیسر یونس خان جیسے فرشتہ صفت انسان کے دامن پر لگائے گئے دھبے کو دھونے کی کوشش کرے، ورنہ جو مشعل روشنی دیتی ہے، وہ جلا بھی سکتی ہے۔ تورگل کو چاہیے کہ وہ کھرے کھوٹے کی تمیز کرے۔ پروفیسر محترم جیسے لوگ اس معاشرے کے اصل ہیرو ہیں۔ ایسے لوگ نایاب ہیں اور اس بات کی گواہی ہر وہ شخص دے گا جس کی اُن سے کم از کم ایک ملاقات ہوئی ہو۔خدا پروفیسر یونس خان صاحب کو لمبی زندگی عطا فرمائے، تاکہ وہ ہم جیسے مزید بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر لاسکیں، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
