اگر کوئی ایک شخص بہ یک وقت اُستاد، ادیب، شاعر، مدبر، سیاسی رہ نما، وطن پرست، قوم پرست، اساتذہ سیاست کے سرخیل، ترقی پسند، باشعور، حساس اور دیگر اعلا اوصاف کا حامل ہوسکتا ہے، تو اُن کا نام فضل غنی استاد صاحب اُستاد ہے۔
فضل غنی اُستاد صاحب نے جہاں اساتذہ کے حقوق کے لیے بے مثال کردار ادا کیا، وہاں خدائی خدمت گار تحریک، نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے تعلیم کے فروغ، جہالت کے خاتمے، عدم تشدد، شعوری ارتقا اور کم مراعات یافتہ طبقات کے لیے بے مثال جد و جہد کی۔
فضل غنی استاد صاحب 1939 عیسوی میں نیکپی خیل کے گاؤں برہ بانڈئی میں حاجی امیر زادہ کے گھر پیدا ہوئے۔ حاجی امیر زادہ اپنے پانچ بھائیوں کے ساتھ بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے۔ اُس دور کے معاشرتی جبر کے نتیجے میں والد صاحب کی جائیداد آس پاس کے لوگوں نے ہتھیالی۔ حاجی امیر زادہ کے والد اور فضل غنی اُستاد صاحب کے دادا عمر شاہ المعروف عمرے خان، نیکپی خیل سے لنڈاکئی تک اپنی برادری کے سربراہ تھے۔ نیکپی خیل میں اپنا دوتر (جائیداد) اور حجرہ رکھتے تھے۔ اُن کے مَلَکئی کے عوض ہر زرگر پر فی سندان ایک روپیا ٹیکس دینا لازم تھا اور یہ تمام زرگر ادا کرتے تھے۔ ریاست اُنھیں مَلَک کے طور پر مواجب بھی ادا کرتی تھی۔
ذکر دراصل فضل غنی اُستاد صاحب کا ہو رہا تھا، جنھوں نے ابتدائی تعلیم شاہ جہاں پاچا گل سے اُن کے مدرسے میں حاصل کی اور جب 1945ء میں مٹہ میں پرائمری سکول قائم ہوا، تو تیسری کلاس میں وہاں داخلہ لے لیا۔ آٹھویں جماعت کے لیے ودودیہ سکول اور نویں میں جہانزیب کالج میں داخلہ لیا۔
اُستاد صاحب اُن چند خوش نصیب طلبہ میں شامل تھے، جن کے پاس اپنی بائیسکل تھی، جس پر گاؤں آتے جاتے تھے۔ 1955ء میں دسویں جماعت کے بعد ٹال میں ایک غیر رسمی سکول میں بہ عوض 14 من مکئی، سال میں دونوں موسموں (جنھیں پشتو میں ’’ہڑ‘‘ اور ’’منے‘‘ کہتے ہیں) کی تنخواہ پر معلم مقرر ہوئے۔ کچھ وقت بعد ریاستِ سوات نے مذکورہ سکول کو تسلیم کیا اور فضل غنی اُستاد صاحب کو ریاستِ سوات کے سرکاری معلم کے طور پر تعینات کیا۔
اُستاد صاحب کبل ا ور ڈھیرئی کے سکولوں میں تعینات رہے۔ 1996ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ حاصل کی۔
اُستاد صاحب نے ملازمت کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔ رسمی علوم کے علاوہ دیگر علوم کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ اساتذہ کے حقوق اور بہبود کے لیے جد و جہد میں نہ صرف آگے رہے، بل کہ سربراہی بھی کرتے رہے۔ ’’آل ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ میں خدمات انجام دیں اور ’’ملگری استاذان‘‘ کی بنیاد رکھی۔
بچپن ہی سے قراقری ( جناح کیپ ) پہنتے تھے،جو ایک طرح سے اُن کی شخصیت کا حصہ بن گئی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی میں اُن کو ’’تھنک ٹینک‘‘ میں رہنے کا اعزاز حاصل تھا۔ بہت سے تحصیل، ضلعی اور صوبائی عہدوں پر فائز رہے۔
اب اُستاد صاحب کا برخوردار بخت اکبر غنی زئے ’’استاد فضل غنی فاؤنڈیشن‘‘ کا چیئرمین ہے۔ یہ فاؤنڈیشن فضل غنی اُستاد صاحب کے خوابوں کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے، جس میں علم دوستی اور علم کا پھیلاو، امن سے پیار اور عدم تشدد، کتاب اور کتب بینی کو عام کرنا، مکالمے اور مباحثوں کا فروغ، علمی، ادبی اور ثقافتی پروگراموں کی ترویج، فضل غنی اُستاد صاحب کا غیر مطبوعہ کلام، مراسلوں کو جمع کرکے شائع کرنا اور فضل غنی اُستاد صاحب کی آب بیتی یا حالاتِ زندگی پر ضخیم کتاب شائع کرنا شامل ہیں۔
اس سلسلے میں جناب بخت اکبر صاحب نے اچھا خاصا کام کیا ہوا ہے، جو یقینا قابلِ تعریف ہے۔
فضل غنی اُستاد صاحب کے انتقال کے بعد اس خاندان نے متواتر کئی صدمے جھیلے، کئی مشکلات برداشت کیں، جس سے ادبی کام میں خلل واقع ہوا، مگر اب ایک نئی طاقت اور جذبے سے یہ کام چل پڑا ہے۔
پروگرام ’’دَ فضل غنی اُستاد صاحب کلیزہ‘‘ ایک مکمل سیاسی، شعوری اور ادبی محفل ہوتا ہے، جس میں دانش ور اور نام ور لوگ حصہ لیتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
