اصل مستحق کو صدقہ دینا ہنر ہے

Blogger Tauseef Ahmad Khan

قارئین، ایک بار مَیں اپنے ابا جان (مرحوم) کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا تھا کہ ایک فقیر کچھ مانگنے کے لیے آگیا۔ مَیں نے حسبِ عادت جیب سے چند سکے نکالے اور اُس کے ہاتھ میں تھما دیے۔ عام طور پر، مَیں کھلے پیسے اس لیے رکھتا ہوں کہ جب کوئی مانگنے والا سامنے آئے، تو فوراً دے کر جان چھڑا لوں۔ فقیر شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔ اس کے بعد ابا جان (مرحوم) مسکراتے ہوئے بولے، ’’دیکھنا، اب دو اور آئیں گے۔‘‘ مَیں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا، لیکن چند ہی لمحے گزرے تھے کہ واقعی دو اور فقیر آپہنچے۔ مجبوری میں، مَیں نے پھر جیب سے پیسے نکالے اور اُنھیں تھما دیے۔ تب ابا جان نے گہری بات کہی: ’’بیٹا، آج کے زمانے میں اصل مستحق کو صدقہ دینا بھی ایک ہنر ہے۔ اگر خیرات اپنے حقیقی حق دار تک نہ پہنچے، تو یہ معاشرے میں خیر کے بہ جائے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر تم واقعی صدقہ دینا چاہتے ہو، تو پہلے ایسے شخص کو تلاش کرو، جو سب سے زیادہ اس کا مستحق ہو۔ ورنہ یوں بغیر سوچے سمجھے خیرات دینا محض ایک رسم سا ہے، جس سے صدقے کی اصل روح مجروح ہو جاتی ہے۔‘‘
وقت گزر گیا، مگر ابا جان (مرحوم) کی یہ نصیحت میرے ذہن پر نقش ہوگئی۔ آج جب مَیں غور کرتا ہوں، تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بالکل درست کہتے تھے۔ اگر آپ کے دل میں واقعی یتیم، مسکین اور بے سہارا لوگوں کا درد ہو، تو ہی آپ اپنے صدقات کو ان کے اصل حق دار تک پہنچا سکتے ہیں۔ ورنہ راہ چلتے کسی مانگنے والے کو چند سکے تھما دینا محض فارمیلٹی پوری کرنا ہے، جس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوتا۔
آج کے زمانے میں اگر دیکھا جائے، تو دینے والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور جو دیتے بھی ہیں، اکثر وہ اپنے خیرات و صدقات صرف اپنے قریبی لوگوں یا جاننے والوں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ نتیجتاً وہ لوگ، جو حقیقی مستحق ہیں، اکثر خیرات و صدقات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنے صدقات کیسے صحیح حق داروں تک پہنچا سکتے ہیں؟
اگر دیکھا جائے، تو ایک طرف وہ گداگر ہیں، جو گداگری کو بہ طورِ پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ ہر جگہ نظر آتے ہیں اور اکثر فریب کے ذریعے لوگوں سے مدد وصول کرتے ہیں۔ اُن کی شناخت کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اُن کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ حالاں کہ وہ مسلسل خیرات وصول کر رہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف وہ خوددار لوگ ہیں، جو شدید مالی مشکلات کے باوجود کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کرتے، اُن کے لبوں پر شکایت تک نہیں ہوتی اور وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں…… مگر مہنگائی اور مشکلات کے باعث اُن کی ضروریات پوری نہیں ہوپاتیں۔ اُن کے خواب بہت معمولی ہوتے ہیں، جیسے عید کے موقع پر اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے یا ایک چھوٹا سا کھلونا خریدنا، مگر اکثر یہ بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
ہمارے اردگرد بے شمار ایسے افراد موجود ہیں، جو مالی طور پر کم زور ہیں، مگر اپنی عزتِ نفس کی خاطر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اگر ہم غور کریں، تو ہمیں یہ سفید پوش مستحقین آسانی سے نظر آ جائیں گے۔ جیسے کہ نجی اسکول کے اساتذہ جو کم تنخواہ کے باوجود معیاری تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ وہ بیوہ عورتیں جو سلائی یا چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیور جو سخت محنت کے باوجود اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ بزرگ والدین جنھیں اولاد نے تنہا چھوڑ دیا اور وہ کسی پر بوجھ بنے بغیر زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ معصوم بچے جو کھیلنے کودنے کی عمر میں پھول یا قلم بیچ کر اپنے گھر کی روزی روٹی میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وہ محنت کش کسان جو دوسروں کے لیے اناج اُگاتے ہیں، مگر خود قرضوں میں جکڑے رہتے ہیں۔ وہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین جو اپنے بچھڑ جانے والے بیٹے یا شوہر کی یادوں کے سہارے دوسروں کے گھروں میں کام کر رہی ہیں۔ وہ موچی جو پرانے جوتے مرمت کر کے اپنی زندگی کا پہیا چلا رہے ہوتے ہیں۔ بس یا ویگن کے وہ کنڈکٹر جو دن بھر مسافروں کے نخرے اٹھاتے ہیں، مگر اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ پارک کے وہ مالی جو شدید موسم کی پروا کیے بغیر درختوں اور پودوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، تاکہ شہر سرسبز رہے۔ مسجد کے وہ امام جو معمولی تنخواہ پر دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ کتاب فروش جو سڑک کنارے ریڑھی پر کتابیں بیچ کر علم کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ وہ طالب علم جو دن میں مزدوری کر کے اپنی تعلیم مکمل کرنے کی جد و جہد کر رہا ہے۔ وہ ہنرمند مزدور جیسے ترکھان، لوہار اور مستری جو مہنگائی کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ وہ چپڑاسی اور کلرک جو معمولی تنخواہ میں بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گھروں میں پانی پہنچانے والے وہ افراد جو دوسروں کی ضروریات پوری کرتے ہیں، مگر خود مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔ وہ سیکورٹی گارڈ جو شدید گرمی، سردی اور رات کی تاریکی میں جاگ کر دوسروں کی حفاظت یقینی بناتے ہیں اور وہ خاکروب جو صبح سویرے اُٹھ کر گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کرتے ہیں، تاکہ ہمارا شہر صاف ستھرا رہے۔
قارئین، یہ فہرست بہت طویل ہے، مگر اگر ہم ذرا غور کریں اور تھوڑی سی تحقیق کی کوشش کریں، تو ہمیں اپنے ارد گرد ایسے کئی سفید پوش افراد مل جائیں گے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مساکین، یتیموں اور بے سہارا افراد کی مدد کو اپنی ذمے داری سمجھتے تھے اور خود جا کر اُن کی مدد کرتے تھے۔ بعض اوقات دوسرے صحابہ کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ اگر ہم بھی اسی طرح عمل کریں اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کریں، تو یقینا ہمارا معاشرہ مثبت تبدیلی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ رمضان کا مہینا رحمت، برکت اور بخشش کا مہینا ہے۔
آیئے، اس بار حقیقی مستحقین کی مدد کرکے اس مہینے کی اصل روح کو زندہ کریں۔ اگر ہم بھی اسی طرح عمل کرتے رہے اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور اُجاگر کرتے رہے، تو یقینا ہمارا معاشرہ مثبت تبدیلی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ آیئے! اس بار حقیقی مستحقین کی مدد کرکے اس کی اصل روح کو زندہ کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے