بارڈر سمگلنگ: عسکریت پسندوں کی مالیاتی شہ رگ

Blogger Qadar Khan Yousafzai

کہانی پرانی ہے، منظرنامہ نیا نہیں۔ کردار وہی پرانے، ہتھیار جدید اور سرحدیں ویسی ہی غیر محفوظ۔ بلوچستان کے ریگ زاروں میں دن کو خاموشی ہوتی ہے، رات کو جنگل کا قانون۔ دور کہیں کسی ویران راستے پر ایک گاڑی دھول اڑاتے ہوئے تیزی سے نکلتی ہے۔ اندر جدید اسلحہ ہے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھا ایک شخص فون پر کسی کو پیغام دے رہا ہے: ’’کھیپ نکل چکی ہے، بس دعا کرو، آج کوئی ناکہ نہ ہو۔‘‘
یہی وہ جملہ ہے جس پر اس خطے کی سکیورٹی کا دار و مدار ہے۔ اگر رات سکون سے گزر جائے، تو عسکریت پسند گروہوں کے گودام بھر جاتے ہیں۔ اگر ناکے پر پکڑے جائیں، تو چند گھنٹوں بعد کوئی فون آتا ہے۔ کچھ نوٹ ہاتھ بدلتے ہیں، گاڑی بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے۔
یہی بلوچستان کی کہانی اور پاکستان، ایران، افغانستان سرحدی علاقوں کا نوحہ ہے۔ بلوچستان کا جغرافیہ عسکریت پسندوں اور سمگلروں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں۔ مکران کے پہاڑی سلسلے، ماشکیل کے ویران ریگ زار، تربت اور پنج گور کے بے آب و گیاہ میدان، نوشکی کے پتھریلے راستے اور تفتان کے دور دراز علاقے وہ مقامات ہیں، جہاں اداروں کی گرفت کم زور پڑجاتی ہے۔
دراصل یہاں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں، جہاں نہ صرف سمگلنگ کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، بل کہ بھاری ہتھیاروں کی ترسیل بھی یقینی بنائی جاتی ہے۔
ایران کے صوبہ سیستان، بلوچستان سے منسلک علاقوں میں ’’جیش العدل‘‘ جیسے گروہ سرگرم ہیں، جب کہ افغانستان کے ساتھ جڑی سرحدی گزرگاہیں ’’کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان‘‘، ’’داعش خراسان‘‘ اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ یہاں اُن گروہوں کے لیے سمگلنگ نہ صرف مالی وسائل کا ذریعہ ہے، بل کہ ایک حکمت عملی بھی ہے، جس کے ذریعے وہ ریاست کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتے ہیں۔
سرحدی علاقوں میں کئی بڑے سمگلنگ کے راستے فعال ہیں، جن میں تفتان، ماشکیل، نوکنڈی، مند، نوشکی، قلعہ عبداللہ، تربت، پنج گور، پسنی، جیوانی اور سربندن جیسے علاقے شامل ہیں۔
یہ وہ سرحدی مقامات ہیں، جہاں سے نہ صرف ایرانی پیٹرول، اسلحہ، منشیات اور غیر قانونی تارکینِ وطن گزرتے ہیں، بل کہ عسکری گروہوں کومبینہ طور پر جدید ہتھیار اور دھماکا خیز مواد بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
افغان طالبان کے قبضے کے بعد امریکی اسلحے کا بڑا ذخیرہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگا، جس میں "M16″، "M4” کاربائن، جدید ڈرون، اینٹی ٹینک میزائل اورسمارٹ بم شامل ہیں۔
یہی ہتھیار اب بلوچستان کے مختلف راستوں سے عسکری گروہوں تک پہنچ رہے ہیں، جو ریاست کے خلاف منظم حملوں میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یہ اسلحہ ان راستوں سے ہوتا ہوا جنوبی بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں داخل ہوتا ہے، جہاں سے عسکری گروہ پاکستانی فورسز اور اہم تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں میں بلوچستان میں ہونے والے بڑے حملوں میں جدید ترین اسلحے کا استعمال دیکھا گیا ہے، جس میں دھماکا خیز ڈرون، سنائپر رائفل اور جدید راکٹ لانچر شامل ہیں۔
جنوری 2024ء میں بلوچستان میں چینی انجینئروں کی گاڑی پر جدید راکٹ حملہ ہوا، جس کی ذمے داری ’’بلوچ لبریشن آرمی‘‘ نے قبول کی۔
مارچ 2024ء میں چمن میں ایف سی کی چیک پوسٹ پر ڈرون حملہ کیا گیا، جس میں جدید دھماکا خیز مواد استعمال ہوا۔
اپریل 2024ء میں پنج گور میں ایک پاکستانی سیکورٹی قافلے پر گرنیڈ لانچر حملہ کیا گیا، جس میں کئی اہل کار شہید ہوئے۔
گذشتہ دنوں ایک بار پھر دہشت گردی کی بڑی کارروائی بنوں میں ہوئی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کے علاوہ عام شہری بھی انتہا پسندوں کا نشانہ بنے۔
یہ حملے کسی روایتی رائفل یا پرانے AK-47 سے نہیں کیے گئے، بل کہ سمگل شدہ جدید ترین اسلحے سے کیے گئے، جو سرحدی سمگلنگ کی ایک بھیانک حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے ایک متوازی حکومتی نظام قائم کرلیا ہے۔ نوشکی، پنج گور اور مند کے پہاڑی راستے جہاں پہلے عام ٹرانسپورٹروں کا گزر معمول تھا، اب وہاں ہر گاڑی کو ’’ٹیکس‘‘ ادا کرنا پڑتا ہے۔
ایک پیٹرول ٹینکر اگر ایران سے بلوچستان کے کسی علاقے تک پہنچنا چاہتا ہے، تو اسے کم از کم 50,000 روپے عسکریت پسندوں کو دینا ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکس نہ دینے کا مطلب سیدھا جان کا خطرہ ہے۔
یہی صورتِ حال چاغی اور تربت جیسے علاقوں میں بھی دیکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ مقامی قبائلی سردار اور ملی بھگت کرنے والے کرپٹ اہل کار بھی اس کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں۔
چند ماہ قبل حکومت نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ سمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ غیر قانونی راستے بند کیے جائیں گے۔ سرحدوں پر کڑی نگرانی ہوگی، لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں بدلا۔
تفتان کے راستے روزانہ ایک لاکھ لیٹر سے زیادہ ایرانی پیٹرول ملک میں آتا ہے۔ افغانستان کے ذریعے ہرات اور کابل سے منشیات، امریکی ساختہ اسلحہ اور دھماکا خیز مواد پاکستان میں پہنچتا ہے۔
گوادر سے کراچی جانے والے راستوں پر چینی سمگلنگ اور ٹائر مافیا کے قافلے گزرتے ہیں، جنھیں کوئی ہاتھ نہیں لگاسکتا۔
اگر حکومت واقعی عسکریت پسندی اور سمگلنگ کے اس مہلک گٹھ جوڑ کو ختم کرنا چاہتی ہے، تو خالی بیانات نہیں، سخت فیصلے لینا ہوں گے۔
سب سے پہلے، سرحدی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ ڈرونز، سیٹلائٹ سرویلنس اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے سمگلنگ کے روٹس کی نشان دہی کی جائے۔
اس کے بعد ریاست کو انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بہتر بنا کر عسکریت پسندوں کے مالیاتی ذرائع پر حملہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کی مغربی سرحدوں پر لکھی جانے والی یہ کہانیاں صرف دھویں اور گولیوں کی داستانیں نہیں، بل کہ ریاست کے کم زور ہونے کی داستانیں ہیں۔ اگر حکومت اور ادارے آج بھی جاگنے میں ناکام رہے، تو یہ سمگلنگ صرف مالی نقصان کا باعث نہیں بنے گی، بل کہ یہ ریاست کے لیے وجودی خطرہ ثابت ہوگی۔
یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہوگا، ورنہ کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے