تحریر: عبد اللہ خالد
ہرمین میلول (Herman Melville) جو 19ویں صدی کے ایک امریکی مصنف تھے، جن کی کہانیاں سمندری مہمات، انسان کی نفسیات اور قسمت کے کھیل کے گرد گھومتی ہیں۔ 1819ء میں نیویارک میں پیدا ہونے والے میلول نے اپنی جوانی میں مختلف ملازمتیں کیں، لیکن بالآخر سمندر نے اُنھیں اپنی طرف راغب کیا۔ وہ ایک وہیل کا شکار کرنے والے جہاز پر سوار ہوئے اور اسی تجربے نے اُنھیں اپنے سب سے مشہور ناول ’’موبی ڈک‘‘ لکھنے میں مدد دی۔
یہ ناول 1851ء میں شائع ہوا، لیکن اپنے وقت میں زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔ لوگ اس کی پیچیدہ علامتوں، فلسفیانہ انداز اور غیر روایتی کہانی کو پوری طرح نہ سمجھ سکے۔ میلول کی زندگی کا زیادہ تر حصہ گم نامی میں گزرا اور وہ 1891ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے…… لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، ’’موبی ڈک‘‘ کو ایک شاہ کار تسلیم کر لیا گیا۔ آج اسے امریکی ادب کی سب سے عظیم تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔
قارئین، آیئے ناول کی کہانی کی طرف چلتے ہیں:
میرا نام اسماعیل ہے، اور یہ میری کہانی ہے۔ مَیں ہمیشہ سے سمندر کا دیوانہ تھا۔ جب بھی پانی کی لہریں کنارے سے ٹکراتیں، ایسا لگتا جیسے وہ مجھے بلا رہی ہوں۔ ایک دن، مَیں نیو بیڈفورڈ نامی بندرگاہ پر پہنچا اور فیصلہ کیا کہ وہیل کے شکار کے ایک جہاز پر سفر کروں گا۔ قسمت نے مجھے ’’پی کوڈ‘‘ نامی جہاز پر پہنچا دیا، جس کا کپتان ایک عجیب و غریب اور پُراَسرار آدمی تھا۔ موصوف کا نام تھا کیپٹن اہاب۔ شروع میں، ہم نے اُسے نہیں دیکھا۔ وہ اپنے کیبن میں بند رہتا تھا، لیکن جہاز کے دوسرے ملاحوں کی سرگوشیاں ہر جگہ سنائی دیتیں۔ وہ کہتے تھے کہ کیپٹن اہاب کی ایک ٹانگ لکڑی کی ہے۔ کیوں کہ ایک خوف ناک سفید وہیل نے سالوں پہلے اس کی اصلی ٹانگ چبا لی تھی۔ وہ وہیل، جسے سب ’’موبی ڈک‘‘ کہتے تھے، کسی افسانے کی طرح لگتی تھی، بہت بڑی، طاقت ور اور ہمیشہ بچ نکلنے والی۔
کچھ دن بعد، کیپٹن اہاب خود سب کے سامنے آیا۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی، جیسے کسی پاگل شخص کی ہو۔ اُس نے ہمیں جمع کیا اور بولا: ’’یہ سفر شکار کے لیے نہیں، بدلے کے لیے ہے! مَیں موبی ڈک کو ڈھونڈوں گا اور اُسے مار ڈالوں گا!‘‘
ہم سب ساکت رہ گئے۔ ہم میں سے کچھ جوش سے چلانے لگے، کچھ خاموش رہے اور کچھ خوف زدہ ہوگئے…… لیکن سب کو معلوم تھا کہ اب ہم ایک خطرناک سفر پر نکل چکے ہیں۔
ہفتے، مہینے گزر گئے۔ ہم طوفانوں سے لڑے، کئی وہیلوں کا شکار کیا، مگر کیپٹن اہاب کی نظریں ہمیشہ اُفق پر جمی رہتیں، جیسے وہ کسی سائے کا پیچھا کر رہا ہو۔ وہ راتوں کو جاگ کر سمندر میں گھورتا، جیسے وہیل کو للکار رہا ہو۔ پھر وہ دن آیا جس کا انتظار تھا۔ ایک ملاح نے چیخ کر کہا، ’’وہاں! سفید وہیل!‘‘ سب نے آسمان اور پانی کے درمیان نظر دوڑائی اور پھر ہم نے اُسے دیکھا۔ موبی ڈک! وہ سمندر سے باہر نکلی۔ سورج کی روشنی میں اس کی سفید جلد چمک رہی تھی اور وہ عام وہیلوں سے کہیں زیادہ بڑی اور خوف ناک لگ رہی تھی۔ کیپٹن اہاب کی آنکھوں میں دیوانگی تھی۔ ’’یہی وہ لمحہ ہے!‘‘ اُس نے حکم دیا، اور ہم شکار کی کشتیاں پانی میں اُتارنے لگے۔
جنگ شروع ہوگئی۔ موبی ڈک ہم پر جھپٹی۔ اپنی طاقت سے ہماری کشتیاں اُلٹا دیں۔ ملاحوں کو اچھالا اور پھر کیپٹن اہاب کی طرف بڑھی۔ اہاب نے اپنا بھالا پوری طاقت سے پھینکا، جو وہیل کے جسم میں پیوست ہوگیا، مگر وہیل نے زور کا جھٹکا دیا۔ رسی کیپٹن اہاب کے گرد لپٹ گئی اور وہ وہیل کے ساتھ بندھ گیا۔ وہ چلایا، ہاتھ پاؤں مارے، مگر موبی ڈک نے اُسے سمندر کی گہرائیوں میں گھسیٹ لیا۔جہاز پی کوڈ بھی اس لڑائی میں تباہ ہوگیا۔ مَیں سمندر میں تیرتے ہوئے ایک لکڑی کے ٹکڑے سے لپٹ گیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور مَیں اکیلا تھا۔ کئی دن بعد، ایک جہاز نے مجھے بچایا اور مَیں یہ کہانی سنانے کے لیے رہ گیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
